رسائی کے لنکس

بچوں کی فحش اور عریاں ویب سائٹس تک رسائی


گذشتہ روز ایک نئے قانون کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت بالغ فحش مواد رکھنے والی ویب سائٹس کو اس بات کا پابند بنایا جائے گا کہ ، اپنے وزیٹرز سے ان کی عمر کا ثبوت حاصل کریں ۔

انٹرنیٹ کی مفید معلوماتی دنیا میں کچھ تاریک گلیاں ایسی بھی ہیں جہاں عریانیت اور فحاشی سے متاثر ہونے والوں کی اخلاقی اقدار کی تباہی کا سارا سامان موجود ہے۔

انٹرنیٹ پربالغان کے حوالے سے موجود فحش مواد تک بچے کس طرح رسائی حاصل کر رہے ہیں؟ فحاشی کا بچوں پرکیا اثر پڑتا ہے یا پھر بچے جنسیات سے متعلق کیا سیکھتے ہیں؟

ان سوالات نے ترقی یافتہ قوموں کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔ انٹرنیٹ سے متعلق 'اوپٹی نیٹ' کی سال 2010 کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہےکہ انٹرنیٹ کا تقریبا 37 فیصد حصہ فحش اور عریاں مواد پر مشتمل ہے تاہم حالیہ برسوں میں ایسی ویب سائٹوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب اسمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان تک رسائی بہت آسان ہو چکی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک جائزہ رہورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ایک ماہ کے دوران صرف ایک فحش ویب سائٹ کو 112,000 نوجوانوں نے دیکھا جن کی عمریں 12 سے 18 برس کے درمیان تھیں۔

برطانیہ میں حکومت نے فحش ویب سائٹس تک بچوں کی رسائی ناممکن بنانے کے لیے کئی اقدامات کئے گئے ہیں۔ اسی سلسلے میں گزشتہ روز ایک نئے قانون کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت بالغ مواد رکھنے والی ویب سائٹس کو اس بات کا پابند بنایا جائے گا کہ وہ اپنے وزیٹرز سے ان کی عمر کا ثبوت حاصل کریں۔

ادارہ برائے ثقافت، میڈیا اور کھیل کی تجاویز کے تحت فحش ویب سائٹس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کریڈٹ کارڈ یا دیگر دستاویزات سے 18 برس کی عمر کا ثبوت فراہم کرنا لازمی ہو گا۔ اس قانون کا اطلاق اس سال کے آخر تک کیا جائے گا۔

کہا جاتا ہے کہ حکومت کی جانب سے سخت قوانین کا اعلان بی بی سی کی اس رپورٹ کے تناظر میں کیا گیا ہے جس کے اعدادوشمار سے پتا چلتا ہے کہ ہر 4 میں سے ایک برطانوی بچہ 12 برس یا اس سے پہلے ہی کسی نہ کسی طور پر فحش ویب سائٹس سے متعارف ہو چکا ہوتا ہے۔

اس جائزہ رپورٹ میں شامل 1000 نوجوانوں میں سے 7.3 فیصد نے پہلی بار ایسی ویب سائٹس 10 برس سے کم عمر میں دیکھی۔ جبکہ تقریباً 60 فیصد نے بتایا کہ انھوں نے 14 برس یا اس سے بھی کم عمری میں فحش مواد تک رسائی حاصل کی تھی۔

علاوہ ازیں 62 فیصد کا کہنا تھا کہ انھوں نے غیر متوقع طور پر یا کسی کے اصرار پر ایسی ویب سائٹس دیکھی تھیں لیکن 22 فیصد نے بتایا کہ انھوں نے کی سرچ پر جا کر ایسی ویب سائٹس کو تلاش کیا تھا۔

انٹرنیٹ کے اثرات کے حوالے سے اساتذہ کی یونین (اے ٹی ایل) کے ایک سروے میں شامل 40 فیصد اساتذہ نے بتایا کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران طلبا میں جنس کے حوالے سے بات چیت کرنے کے رجحان میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

تقریباً اتنی ہی تعداد میں اساتذہ نے بتایا کہ نوجوانوں میں موبائل فون کے ذریعے نازیبا تصاویر اور پیغامات بھیجنے کے رجحان کے حوالے سے وہ پوری طرح آگا ہ ہیں۔ اساتذہ کی جانب سے یہ سروے فروری کے مہینے میں پیش کیا گیا جب ہاوس آف لارڈ نے جنس اور تعلقات کی تعلیم کو لازمی بنانے کے ترمیمی قانون کی مخالفت میں ووٹ کاسٹ کئے تھے۔

اگرچہ آن لائن سیفٹی بیشتر ملکوں کے تعلیمی نظام کا حصہ نہیں ہے لیکن ایک نجی تنظیم 'لندن گرڈ فار لرننگ' کی جانب سے گزشتہ ماہ انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال سے متعلق آگاہی کے ایک پروگرام کے تحت پرائمری اور سکینڈری کا دورہ کیا گیا۔

'گلوبل سیفر' انٹرنیٹ ڈے کے موقع پر تنظیم کی طرف سے جاری کردہ سروے میں لندن کے اسکولوں کے 17,000 بچوں سے ان کے آن لائن مشاغل اوردلچسپوں کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی جس کے مطابق 19 فیصد بچوں نے بتایا کہ انھیں اکثر ایسی ویب سائٹس نظر آتی ہیں جن سے وہ اچھا محسوس نہیں کرتے ہیں۔

اسی طرح 10 فیصد بچوں نے بتایا کہ انھیں اجنبی افراد کی جانب سے نازیبا پیغامات اور تصاویر موصول ہوئی ہیں۔

جائزہ رپورٹ کے مصنف اور تنظیم سے وابستہ کرسٹین اسمتھ نے آن لائن سیفٹی مہم کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے 'وی او اے' کو بتایا کہ لندن کے بیشتر اسکولوں میں فروری کے مہینے میں بچوں کو سائبر جرائم اور آن لائن فحاشی اور اسمارٹ فون پرنازیبا تصاویر کے تبادلے جیسے حساس مسائل سے آگاہی فراہم کرنے کے لیےخصوصی کلاسوں کا اہتمام کیا گیا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ کمرہ جماعت اس حوالے سے بہترین جگہ ہو سکتی ہے جہاں بچے کچھ سیکھنے کے لیے جمع ہوتے ہیں اور ان کے اندر سنجیدگی پائی جاتی ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ والدین پر کڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی تربیت پر زیادہ وقت دیں اور انھیں وقت کے حوالے نہ کریں۔
XS
SM
MD
LG