آپ نے کوؤں کی ذہانت، چالاکی اور ہوشیاری کی بہت سی کہانیاں پڑھ سن رکھی ہوں گی، لیکن شاید یہ بات آپ کے لیے نئی ہو کہ اب سویڈن کے ایک شہر کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں سے سگریٹ کا کچرا اٹھانے کا کام کوؤں سے لیا جا رہا ہے۔اور ذہین کوے یہ کام بڑی خوش اسلوبی اور خوشی سے سرانجام دے رہے ہیں۔
یورپ کے ایک خوبصورت ملک سویڈن کے دارالحکومت سکاٹ ہوم کے قریب "سوڈرٹالش" نام کا ایک شہر واقع ہے۔ اس شہر کی انتظامیہ کا سب سے بڑا مسئلہ سگریٹ ہے۔ چونکہ عمارتوں کے اندر سگریٹ پینے کی اجازت نہیں ہے، لوگ باہر کھڑے ہوکر سگریٹ سلگاتے ہیں اور اس کے بچے کچے ٹکڑے زمین پر پھینک دیتے ہیں۔
اگرچہ وہاں جگہ جگہ کوڑے کے ڈرم موجود ہیں، لیکن سگریٹ کے ٹکڑے زمین پر پھینکنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلا تھا کہ وہاں ہرسال سگریٹ کے لگ بھگ ایک ارب "ٹوٹے" گلی کوچوں اور سڑکوں پر پھینک دیے جاتے ہیں، جسے اکھٹا کر کے ٹھکانے لگانا شہری انتظامیہ کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کام پر ان کا ایک بڑا بجٹ خرچ ہوتا ہے۔
اس مسئلے کا ایک دلچسپ اور آسان حل تلاش کیا کرسٹین گینتھر ہینسں نے۔ انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ اس کام کے لیے کوے کی ذہانت سے فائده اٹھایا جائے اور اسے سگریٹوں کے ٹکڑے اکھٹے کر کے کسی خاص قسم کے ڈرم میں ڈالنے کے کام پر لگا دیا جائے۔ تاہم اسے اس کام کے لیے سدھانے اور تربیت دینے کی ضرورت تھی۔
پرندوں اور دیگر جانوروں کو سدھانا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ نفسیات کے ماہرین اس کے لیے لالچ کا حربہ استعمال کرتے ہیں۔ کسی خاص کام کے بدلے میں انہیں، ان کی پسند کی کھانے کی کوئی چیز دی جاتی ہے، جس سے وہ یہ کام شوق سے کرنے لگتے ہیں۔
کینتھر ہینس نے بھی یہی کیا۔ابتدائی تجربات میں کامیابی کے بعد انہوں نے ایک کوڑے دان نما مشین بنائی۔ جب کواسگریٹ کا ٹکڑا لا کرڈرم میں ڈالتا تو اس میں سے انعام کے طور پر کھانے کی ایک چیز باہر نکل آتی۔
کینتھر ہینس کا کہنا ہے کہ اس نے کسی اور پرندے کی بجائے کوے کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ وہ انسانی آبادیوں میں عام پایا جاتا ہے، وہ دوسرے پرندوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہے اور اسے سکھانا نسبتاً آسان ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کو زیادہ کوؤں کو سکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ دوسرے کوے ایک سدھائے ہوئےکوے کو دیکھ کر خود ہی سیکھ جاتے ہیں اور کھانے کی لالچ میں سگریٹ کے ٹکڑے چننے کا کام کرنے لگتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کوؤں کو اس کام کے لیے سدھانے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ خطرہ نہیں ہوتا کہ وہ سگریٹ کے ٹکڑے کھا لیں گے۔ تمباکو پرندوں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ کوے کو اچھی طرح پتہ ہے کہ اسے وہی کچھ کھانا ہے جو ہم اسے دیں گے۔
اس کامیابی کے بعد کینتھر ہینس نے اپنی ایک کمپنی کھولی اور شہری انتظامیہ کو سڑکوں اور گلی کوچوں میں بکھرے ہوئے سگریٹوں کے ٹکڑے اٹھانے کی پیش کش کی۔
برطانوی روزنامہ گارڈین سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کوؤں کے استعمال سے سگریٹوں کے ٹکڑے چننے کے لیے مختص بجٹ کا 75 فی صد تک بچایا جا سکتا ہے۔
ماحولیات سے متعلق سویڈن کے ایک ادارےکیپ سویڈن ٹائیڈی کارپوریشن کا کہنا ہے کہ سوڈرٹلش میں ہر سال کچرا اٹھانے پر تقریباً 27 لاکھ ڈالر خرچ ہوتے ہیں اور اس کچرے کا لگ بھگ 62 فی صد حصہ سگریٹ کے بچے کچے ٹکڑوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
کینتھر ہینس کا کہنا ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ان کی کمپنی نے کوؤں کو ملازم رکھ لیا ہے۔ بلکہ وہ ہمارے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں ہم انہیں خوراک دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ ہم نے کوے کو تو یہ سکھا لیا ہے کہ سگریٹ کے ٹکڑے چن کر انہیں کوڑے دان میں ڈالنا ہے لیکن ہم انسانوں کو ابھی تک یہ نہیں سکھا سکے کہ سگریٹ کا کچرا زمین پر نہیں پھینکنا۔
سگریٹ بٹ پولوشن نامی گروپ کا کہنا ہے کہ سگریٹ کے ٹکڑے ماحول کو آلودہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گروپ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ساڑھے پانچ ٹریلین سے زیادہ سگریٹ بنتے ہیں جن میں سے دو تہائی سگریٹوں کے ٹکڑے سڑکوں پر پھینک دیے جاتے ہیں ، جن میں سے زیادہ تر انجام کار پانی میں شامل ہو جاتے ہیں۔
(کچھ معلومات گارڈین اور گلوبل نیوز سے لی گئی ہیں)