ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اتوار کو ہونے والے مہلک دہشت گرد حملے کے بعد سکیورٹی فورسز نے اس میں ملوث دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے صوبے میں کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔
اتوار کی شب لاہور کے وسط میں واقع گلشن اقبال پارک کے باہر ہونے والے ایک مہلک خود کش حملے میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ لگ بھگ 300 افراد زخمی ہوئے تھے۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل عاصم باجوہ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر کہا ہے کہ پیر کو فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے راولپنڈی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں لاہور حملے میں ملوث دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے پنجاب میں جاری کارروائیوں کا جائزہ لیا۔
اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انیٹلی جنس اداروں، فوج اور رینجرز نے لاہور، فیصل آباد اور ملتان میں کل رات سے اب تک پانچ آپریشن کیے جن میں متعدد مشتبہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کر لیا گیا ہے۔
لیفٹننٹ جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ آنے والے دنوں میں مزید آپریشنز کیے جائیں گے۔
تجزیہ کار اکرام سہگل کا کہنا ہے کہ طویل عرصہ سے ایسی کارروائیوں کی ضرورت تھی مگر شدت پسندوں کے ردعمل کے خوف کے باعث حکومت اس پر آمادہ نہیں تھی۔
’’ان کے رابطے ہیں، ان کی رسد کا نظام ہے، محفوظ ٹھکانے ہیں، یعنی ایک مکمل ٹیٹ ورک ہے۔ وہ جب تک آپ نہیں توڑیں گے آپ (کا مقابلہ) نہیں کر سکتے۔‘‘
پاکستان فوج نے 2014 کے وسط میں دہشت گردوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا تھا۔ طویل عرصہ سے پنجاب میں بھی دہشت گردوں کے ٹھکانے ہونے کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں مگر اس سلسلے میں اب تک فیصلہ کن کارروائی نہیں کی جا سکی۔
ادھر لاہور میں پیر کو وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں ہونے والی ایک اجلاس میں اتوار کو ہونے والے حملے اور دہشت گردی سے نمٹنے کی حکمت عملی کا جائزہ لیا گیا۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں نے اجلاس کو لاہور حملے کے متعلق اب تک حاصل ہونے والی معلومات پر بریفنگ دی۔ بیان میں وزیراعظم کے حوالے سے کہا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا ناگزیر ہے۔
’’ہمارا مقصد ناصرف دہشت گردوں کا ڈھانچہ ختم کرنا بلکہ انتہا پسندانہ ذہنیت کو بھی ختم کرنا ہے جو ہمارے طرز زندگی کے لیے ایک خطرہ ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہمارا عزم مضبوط ہو رہا ہے جبکہ دہشت گرد آسان اہداف کا انتخاب کر رہے ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس اداروں کے درمیان زیادہ فعال رابطے اور صوبوں کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر آپریشنز چاہتے ہیں۔
’’ہمیں اس جنگ میں دہشت گرد تنظیموں کی دہلیز تک پہنچنا ہوگا اس سے پہلے کہ وہ ہمارے معصوم ہم وطنوں کو نشانہ بنائیں۔ دہشت گردوں نے ہمارے بچوں، بیٹوں اور اور بیٹیوں کو نشانہ بنایا ہے اور خدا نے چاہا تو ہم انہیں اس ملک سے مٹا دیں گے‘‘۔
پنجاب میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما حمزہ شہباز نے لاہور میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے اس تاثر کو رد کیا کہ حکومت نے صوبے میں آپریشن میں تاخیر سے کام لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اور حکومت اس جنگ کو منتقی انجام تک پہنچائے گی۔
’’یہ سب درندے ہیں کہ جو ڈر میں مبتلا ہیں اور شاید سمجھتے ہیں کہ ایسے کارروائی کر کے، پھول جیسے بچوں کو شہید کر کے، خوف و ہراس پھیلا کر ہمارے عزم کو متزلزل کر سکتے ہیں۔ یہ ان کی بھول ہے۔ جو سن رہے ہیں ان کو بھی میں کہنا چاہتا ہوں کہ تمام سیاسی پارٹیاں، اس میں میڈیا بھی ہے، پاکستانی قوم بھی ہے اور صوبے بھی ہیں، سب یکسو ہیں کہ ہم انشا اللہ دہشت گردی کے کنسر کو ختم کریں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جہاں ضرورت پڑ رہی ہے وہاں ہم کارروائیاں کر رہے ہیں۔