رسائی کے لنکس

کیا ہوائی اڈوں کے نئے فل باڈی اسکینرز صحت کے لیے مضر ہیں؟



مسافر بردار طیاروں کو دہشت گرد حملوں محفوظ رکھنے کے ایک طریقے کے طورپر امریکہ اور کئی یورپی ملکوں نے فل باڈی سکینرز نصب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں ان کی تنصیب پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور تنقید کی جارہی ہے، خاص طور پر ان 14 ملکوں میں جن کے شہریوں کے لیے یہ سکینرز ضروری قرار دیے گئے ہیں۔ ان سکینرز پر پرائیویسی اور انسانی حقوق کے حوالے سے کیے جانے والے اعتراضات کے ساتھ انہیں صحت کے لیے بھی نقصان دہ سمجھا جارہا ہے۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ان سکینرز سے پیدا ہونے والی ریڈی ایشن کی معمولی مقدار وقت گذرنے کے ساتھ انسانی جسم میں کینسر کے خطرے میں اضافہ کرسکتی ہے۔

اگر کرسمس کے دن امریکہ جانے والے طیارے پر سوار مبینہ خودکش بمبار کے پورے جسم کی سکیننگ کی جاتی تو اس کے دھماکہ خیز مواد کا پتا چل سکتا تھا اور بم دھماکے کی اس کوشش کو بہت پہلے ناکام بنایا جاسکتاتھا۔

امریکہ کےساتھ ساتھ برطانیہ، نیدرلینڈز ، فرانس اور اٹلی نے بھی اپنے ہوائی اڈوں پر باڈی سکینرز نصب کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

ایکسرے جیسی ان مشینوں کے استعمال سے جسم کی صحیح تصویر خود بخود سامنے آجاتی ہے اور اس سے لباس میں چھپی ہوئی چیزوں کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔

ان سکینرز کے استعمال کے حوالے سے پرائیویسی کے خدشات کے ساتھ ساتھ ان مشینوں سے خارج ہونے والی ریڈی ایشن سے کینسر کے کسی ممکنہ خطرے کے بارے میں بحث میں بھی اضافہ ہورہاہے ۔

لیکن ماہرین کے مطابق یہ خطرہ بہت معمولی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ backscatter نامی ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والی ریڈی ایشن کی سطح چھاتی کے ایکسرے کی ریڈی ایشن سے 2000 گنا اور سی اے ٹی سکین کی ریڈی ایشن سے دو لاکھ گنا کم ہے۔

بالٹی مور کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن میں ریڈیالوجی کے پروفیسر مہادیو اپا مہیش کہتے ہیں ۔

اس سکیننگ میں تقریباً آٹھ سے 15 سیکنڈ لگتے ہیں اور ریڈی ایشن کی سطح بہت کم ہوتی ہے ،کیونکہ ان سکینر ز سے خارج ہونے والی شعاعیں جسم کے اندر تک نہیں جاتیں۔ اس کی مقدار بہت کم ہوتی ہے ، اور پھر یہ فوراً ہی منعکس ہوجاتی ہے ۔ اور جسم سے واپس آنے والی اس ریڈی ایشن کو ایک detector کے ذریعے وصول کر کے تصویر حاصل کرلی جاتی ہے۔

کرسمس کے دن کےمبینہ خودکش بمبار عمر فاروق عبدالمطب نے نائیجریا کے کمرشل دارلحکومت لاگوس سے ایمسٹرڈیم کا سفر کیا تھا۔

میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے نائیجریا کو باڈی سکینرز فراہم کیے تھے لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی مبینہ بمبار پر استعمال نہیں کیا گیا تھا۔

کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ بہت سے افریقی اور غریب ملکوں کے لیے یہ مہنگی مشینیں خریدنا اور انہیں نصب کرنا بہت مشکل ہوگا۔

اگر ترقی یافتہ ملک یہ سکینرز انہیں عطیے کے طورپر دےدیں توبھی صحت کے حوالے سے مسائل سامنے آسکتے ہیں۔

کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ ترقی پذیر ملکوں میں جہاں مشینوں کی دیکھ بھال مناسب طریقے سے نہیں ہوتی، لوگوں کو تابکاری کی زیادہ مقدار کے سامنے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر مہیش کہتے ہیں کہ جیسا کہ ہم اسپتالوں میں ایسے کسی بھی سکینر کے ساتھ کرتے ہیں یعنی یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ان سے خارج ہونے والی ریڈی ایشن کی سطح معیار کے مطابق اور قابل قبول حد تک ہے ، ان کا گاہے گاہے معائنہ کیا جاتا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے۔ ان سکینرز میں کسی ایسی خرابی کا امکان ہمیشہ موجود ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں ان سے ریڈی ایشن کی زیادہ مقدار خارج ہوسکتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان مشینوں کا تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد معائنہ ضروری ہوتا ہے۔

اگرچہ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ پورے جسم کی سکیننگ سے ریڈی ایشن کی جتنی مقدار بدن میں داخل ہوتی ہے، اس سے کینسر کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا لیکن کچھ ماہرین احتیاط پر زور دیتے ہیں۔

ڈاکٹر ڈیوڈ برنر انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے میڈیکل سینٹر سے منسلک ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ بالغ افراد کی نسبت بچوں پر عمومی طورپر ریڈی ایشن کا زیادہ اثر ہوسکتا ہے اور ماں کے پیٹ میں موجود بچے پر اس کے اثرات بہت شدید نوعیت کے ہوسکتے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اس بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

XS
SM
MD
LG