رسائی کے لنکس

خلیج میں امریکی دفاعی میزائل کی تنصیب پر ایران کی تنقید


خلیج میں امریکی دفاعی میزائل کی تنصیب پر ایران کی تنقید
خلیج میں امریکی دفاعی میزائل کی تنصیب پر ایران کی تنقید

پارلیمان میں تقریر کرتے ہوئے سپکیر لاری جانی نے خلیج میں امریکی تنصیب کی مذمت کی

ایرانی پارلیمان کے سپیکرعلی لاری جانی نے خلیج میں دفاعی میزائلوں کی تنصیب کے امریکی منصوبے پر سختی سے تنقید کرتے ہوئے، فیصلے کو سیاسی حربہ قرار دیا ، جِس کا مقصد اُس کے بقول، علاقے میں اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کرنا ہے۔

منگل کو پارلیمان میں تقریر کرتے ہوئے سپکیر لاری جانی نے خلیج میں دفاعی میزائل کی امریکی تنصیب کی مذمت کی۔ تقریر میں اُنھوں نے ایران کی غیر جانبدارانہ بیرونی پالیسی کی تعریف کی، جِس کی بنیاد اسلامی جمہوریہ کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی نے رکھی تھی۔

لاری جانی کے بقول، خلیجی ریاستوں میں پیٹریاٹ میزائل کی تنصیب کا امریکی فیصلہ جس کا اعلان گذشتہ ہفتے ہوا، اشتعال انگیز تھا جس سے خطے کو خطرہ لاحق ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ، میزائلوں کی تنصیب کے اپنے منصوبےکوجائز قرار دینے کی خاطرخطے میں ایران سےمتعلق تشویش کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ بدقسمتی سے اوباما انتظامیہ کے عہدے دار یہ نہیں سمجھ پاتے کہ علاقے میں مسائل کا سبب امریکہ ہے۔

اُنھوں نے شکایت کی کہ جِن ملکوں میں یہ میزائل رکھے گئے ہیں اُن میں تشویش بڑھے گی، ساتھ ہی امریکی فوجیوں کو خطرہ درپیش رہے گا۔

اپنی متعدد حالیہ تقاریر میں امریکی مرکزی کمان کے سربراہ، جنرل ڈیوڈ پیٹریئس نے کہا ہے کہ امریکہ خلیج میں دفاعی حکمتِ عملی پر کاربند ہے جس میں پیٹریاٹ میزائل نظاموں میں بہتری لانا شامل ہے، جن میں فضا میں بلند میزائل کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت ہوگی۔ ایران کے پاس جو میزائل ہیں وہ 2012کلومیٹر تک مار کرسکتے ہیں، جو کہ اسرائیل اور خطے میں امریکی اڈوں کو ہدف بنا سکتے ہیں۔

دس روز قبل جنرل پیٹریئس نے جارج ٹاؤن یونی ورسٹی میں حاضرین کو بتایا کہ اِس وقت خلیج کی چار ریاستوں میں امریکہ کے پاس پیٹریاٹ میزائل اڈے ہیں۔

مہردار خونساری لندن میں قائم عرب اور ایرانی مطالعے کے مرکز سے وابستہ ہیں۔ اُن کے خیال میں امریکی اقدامات سے اُس امریکی پالیسی میں نمایاں تبدیلی کی نشاندہی ہوتی ہے جِس کا گذشتہ برس صدر باراک اوباما نے اعلان کیا تھا اور جِس میں ایران کے ساتھ رابطے کے عمل کی بات کی گئی تھی۔

بتایا جاتا ہے کہ عرب رہنما ایران کی بڑھتی ہوئی فوجی اسلحہ سازی اور میزائل کے خطرے، اور اُس کی جوہری صلاحیت کے خطرے کے پیش نظر نجی طور پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔

ایران اِس بات پر زور دیتا آیا ہے کہ اُس کا جوہری پروگرام پرامن شہری مقاصد کے لیے ہے، لیکن اُس نے اب تک اقوام متحدہ کی طرف سے پیش کردہ اُس جوہری معاہدے کے مسودے کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ایران اپنے 70فی صد کم درجے کے یورینیم کو مزید افزودگی کے لیے فرانس اور روس بھیجے گا۔

قطر کے ولی عہد نے منگل کو تہران کا دورہ کیا، اور ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے اُنھیں صدر محمود احمدی نژاد کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے دکھایا۔

XS
SM
MD
LG