رسائی کے لنکس

اسلام آباد کے خصوصی سیکٹرز میں ججز اور بیورو کریٹس کو پلاٹس کی الاٹٹمنٹ غیر آئینی قرار


اسلام آباد ہائی کورٹ (فائل فوٹو)
اسلام آباد ہائی کورٹ (فائل فوٹو)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ججز، بیوروکریٹس اور دیگر اعلٰی سرکاری افسران کے لیے خصوصی سیکٹرز میں پلاٹس کی اسکیم غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست کی زمین اشرافیہ کے لیے نہیں صرف عوامی مفاد کے لیے ہوتی ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ اتھارٹی کی اسکیم مفادِ عامہ کے بجائے عوام کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے وفاقی دارالحکومت کے پوش سیکٹرز میں فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی کی اسکیم میں متاثر ہونے والے افراد کی دائرہ کردہ پٹیشنز پر سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔اس کیس میں 10 سے زائد درخواست گزار تھے جنہوں نے عدالتِ عالیہ میں درخواست دائر کی تھی کہ نئی اسکیم کی وجہ سے ان کا حق متاثر ہوا ہے۔

اسلام آباد میں قائم فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی ملک بھر میں وفاق کے ماتحت کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو رہائش کے لیے مارکیٹ سے کم نرخوں پر پلاٹس مہیا کرتی ہے۔ اس وقت بھی اتھارٹی کے ممبران کی تعداد ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد ہے۔

اتھارٹی نے گزشتہ سال اسلام آباد کے نئے سیکٹرز ایف12 ، جی 12، ایف 14اور 15 میں نئے پلاٹس الاٹ کیے تھے۔ریکارڈ کے مطابق ان میں سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے بعض ججز کو بھی پلاٹس الاٹ کیے گئے تھے جن میں موجودہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال اور سابق چیف جسٹس گلزار احمد بھی شامل ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں سیکٹرز ایف12 ، جی 12، ایف 14اور 15 کی الاٹمنٹ اسکیم کو غیر آئینی ، غیر قانونی اور مفاد عامہ کے خلاف قرار دے دیا ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کے ملازمین یا ججز کا فرض ہے کہ وہ حقیقی ا سٹیک ہولڈرز یعنی عوام کی خدمت کریں۔عوامی عہدوں پر کام کرنے والے افراد عوام کی فلاح و بہبود کے خلاف اپنے لیے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔ ہاؤسنگ اسکیم اور اس پر نظر ثانی شدہ پالیسی مفاد عامہ کے خلاف ہے۔

عدالت نے سیکرٹری ہاؤسنگ کو دو ہفتے میں عدالتی فیصلہ کابینہ کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ توقع ہے کابینہ اور وزیرِاعظم چاروں سیکٹرز سےمتعلق مفادِ عامہ کے تحت پالیسی بنائیں گے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حیران کن طور پر جن موجودہ اور ریٹائرڈ ججز کو پلاٹ دیے گئے ہیں ان میں کم سن گھریلو ملازمہ پرتشدد کے کیس میں سزا یافتہ جج اور رشوت وصولی کے اعتراف پر برطرف ہونے والا جج شامل تھے ۔ اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں کا ہر جج پلاٹس سے مستفید ہونے والوں میں شامل ہے جب کہ نااہل اور خراب ساکھ پر زیر نگرانی رکھے گئے ججز کو بھی پلاٹس دیے گئے ہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ 17 اگست 2021 کو سیکٹر ایف 14،15 کے لیے ہونے والی قرعہ اندازی شفاف نہیں تھی۔ الاٹمنٹ کے وقت ایک لاکھ 35 ہزار سے زائد ملازمین میں سے ایک لاکھ 26 ہزار کو نظرانداز کیا گیا ۔

فیصلے میں کہا گیا کہ لگتا ہے وزیرِاعظم اور کابینہ کو اس کے اثرات سے اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔کابینہ کے سامنے پیش کیے گئے ریکارڈ میں الاٹمنٹس کے لیے سلیکشن کا طریقہ کار نہیں بتایا گیا تھا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اشرافیہ کا خزانے اور عوام کو نقصان پہنچا کر دولت مند ہونا آئینی معاشرے میں ناقابلِ تصور ہے۔ پلاٹس کی الاٹمنٹ کے طریقہ کار میں شفافیت ثابت کرنے کے لیے کچھ نہیں دکھایا گیا۔ نظرثانی شدہ پالیسی میں وکلا اور صحافیوں کو نکالنا بھی قابلِ غور پہلو ہے۔

عدالت نے اس پر بھی حیرانگی کا اظہار کیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ نے کبھی پلاٹس پالیسی میں شمولیت کی درخواست نہیں دی۔ لیکن اس بات کی کوئی وضاحت نہیں دی گئی کہ بغیر درخواست کے انہیں پالیسی میں کیوں شامل کیا گیا۔


ججز کو پلاٹس کی الاٹمنٹ

گزشتہ برس فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی کے تحت ہونے والی قرعہ اندازی میں پانچ ہزار کے قریب پلاٹس الاٹ کیے گئے تھے جن میں سے عدلیہ کے کئی ججز کو بھی پلاٹس الاٹ کیے گئے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے بعض ججز کی جانب سے درخواست نہ دینے کےباوجود انہیں پلاٹس الاٹ کیے گئے تھے ۔

اس اسکیم کے تحت سپریم کورٹ کے ججز کو بھی پلاٹس الاٹ ہوئے تھے جن میں سے جسٹس فائز عیسیٰ نے پلاٹ لینے سے انکار کر دیا تھا ۔ البتہ موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد سمیت کئی ججز کو 500 گز کے پلاٹ الاٹ کیے گئے تھے۔

عدالت میں دائر پٹیشنوں میں کہا گیا تھا کہ ان پلاٹوں کی قیمت 50 لاکھ روپے وصول کی جارہی ہے جب کہ مارکیٹ میں اس کی قیمت 5 کروڑ روپے سے زائد ہے۔

خیال رہے کہ اس اسکیم کے تحت بعض افراد کو الاٹمنٹ کے بعد الاٹمنٹ لیٹر جاری کردیے گئے تھے اور بعض پلاٹ فروخت بھی ہوچکے ہیں اور ان کا مستقبل غیریقینی ہے کیونکہ عدالت نے الاٹمنٹ کی پوری اسکیم ہی غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دے دی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہاؤسنگ اتھارٹی کے زیرانتظام بننے والے دیگرسیکٹرز میں پلاٹس کی الاٹمنٹ سے متعلق مختلف پٹیشنز پر سماعت جاری ہے۔ان سیکٹرز کی زمینوں کے آبائی مکینوں کا کہنا ہے کہ ان کی زمینوں پر قبضہ کرلیا گیا ہے لیکن انہیں متبادل پلاٹس یا زمین الاٹ نہیں کی گئی۔

XS
SM
MD
LG