رسائی کے لنکس

جاپان اور جنوبی کوریا 'غلام عورتوں' کا تنازع جلد حل کرنے پر متفق


’تسکین پہنچانے والی عورتوں‘ کو جاپانی فوج نے ایشیا پر اپنے تسلط اور جنگ عظیم دوم کے دوران زبردستی جنسی مشقت پر مجبور کیا تھا۔

جاپان کی طرف سے جنوبی کوریا کی عورتوں کو جنگ عظیم دوم کے دوران جبری جنسی مشقت پر مجبور کرنے سے متعلق ایک تاریخی تنازع کو حل کرنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان بدھ کو سیول میں مذاکرات ہوئے۔

جنوبی کوریا کی صدر پارک گیئون ہئی اور جاپان کے وزیراعظم شنزو ایبے نے گزشتہ ہفتے سیول میں ایک دوطرفہ اجلاس میں اس دیرینہ تنازع کو اس سال کے آخر تک حل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

مذاکرات کے نئے دور میں سیول نے اپنا سابقہ مؤقف برقرار رکھا ہے۔

جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ کی ترجمان چو جون ہیوک نے منگل کو کہا تھا کہ ’’چونکہ جاپان اس مسئلے کا ذمہ دار ہے، وہی اسے حل کرے گا۔ جاپانی حکومت ہمیں ایسی تجاویز دے جو متاثرین اور ہمارے شہریوں کے لیے قابل قبول ہوں۔‘‘

قدامت پسند ایبے 2012 میں اقتدار میں آئے تھے اور انہوں نے جاپان کے مضبوط فوجی تشخص اور قوم پرستی کو فروغ دیا ہے جس میں بسا اوقات تاریخ کے ترمیم شدہ نقطہ نظر کو قبول کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے چند حامیوں کو جاپان کے ماضی کے جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کے الزامات کا سامنا ہے۔

’تسکین پہنچانے والی عورتوں‘ کو جاپانی فوج نے ایشیا پر اپنے تسلط اور جنگ عظیم دوم کے دوران زبردستی جنسی مشقت پر مجبور کیا تھا۔ وزیراعظم شنزو ایبے نے ان سے اظہار ندامت کے لیے مبہم زبان استعمال کی اور قومی سطح پر ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

شنزو ایبے کے کچھ حامیوں کے اس بیان پر ایشیا میں بڑے پیمانے پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’تسکین پہنچانے والی‘ بہت سی عورتوں سے زبردستی نہیں کی گئی بلکہ انہوں نے پیسے کی خاطر جسم فروشی کی۔

پارک کو 2013 میں جنوبی کوریا کی صدر منتخب کیا گیا تھا اور انہوں نے وزیراعظم ایبے سے اس وقت تک ملاقات نہ کرنے کا عہد کیا تھا جب تک کہ وہ ’’مخلصانہ معافی‘‘ ںہیں مانگتے اور متاثرہ عورتوں کو تلافی کی پیشکش نہیں کرتے۔ تاہم گزشتہ ہفتے بالآخر انہوں نے وزیراعظم ایبے سے ملاقات کی۔

گزشتہ ہفتے جب دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ مذاکرات ہوئے تو دونوں نے اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے پر اتفاق کیا جس سے امریکہ کے حلیف ان دو ممالک کے تعلقات کشیدگی کا شکار رہے ہیں۔

جاپان کا مؤقف ہے کہ جاپانی نوآبادیاتی دور حکومت کے دوران کوریا کے جن شہریوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ان کا زر تلافی 1965 میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے امن معاہدے میں طے ہو گیا تھا جس کے تحت جاپان نے جنوبی کوریا کو 80 کروڑ ڈالر کے عطیات اور قرضے دیے تھے۔

وزیر اعظم ایبے کا کہنا ہے کہ ان سے اور جنگ عظیم دوم کے بعد پیدا ہونے والے دیگر افراد سے ان جرائم کی معافی کا مطالبہ کرنا غیر منصفانہ ہے۔

انہوں نے جاپان کے ماضی کے رہنماؤں کی جانب سے مانگی گئی معافی کو برقرار رکھنے کا وعدہ کیا ہے جس میں 1993 میں جاری کیا جانے والا کونو بیان بھی شامل ہے جس میں 'تسکین پہنچانے والی' متاثرہ عورتوں سے معافی مانگی گئی اور ان سے ندامت کا اظہار کیا گیا۔

XS
SM
MD
LG