رسائی کے لنکس

کیا آپ اپنے بچے کو پیسے چھاپنے کی مشین بنانا چاہتے ہیں؟


ہم اپنی ناکامیوں کا بوجھ اپنے بچوں پر ڈال کر اپنے ادھورے خواب ان سے پورے کرانے کی کوشش میں انھیں وہ نہیں کرنے دیتے ہیں، جو وہ کرنا چاہتے ہیں

ایک باپ نے اپنے بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تمھیں شرم آنی چاہیے۔ تم پھر فیل ہو گئے۔ جب امریکی صدر ابراہم لنکن تمہاری عمر کا تھا تو اپنی کلاس میں اول آتا تھا۔ بیٹے نے روتے ہوئے جواب دیا، " آ تا ہو گا۔ لیکن جب ابراہم لنکن آپ کی عمر کا تھا تو وہ امریکہ کا صدر تھا"۔

ابراہم لنکن اپنی کلاس میں اول آتا تھا یا نہیں، یہ تو مجھے نہیں پتا۔ لیکن میں اتنا ضرور جانتاہوں کہ یہ بڑے بڑے لوگ اپنی ناکامیوں سے سیکھ کر کامیاب ہوتے ہیں۔ لیکن ہم اپنی ناکامیوں کا بوجھ اپنے بچوں پر ڈال کر اپنے ادھورے خواب ان سے پورے کرانے کی کوشش میں نہ انھیں وہ کرنے دیتے ہیں، جو وہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ وہ ٹھیک سے وہ کر پاتے ہیں جو ہم ان سے کرانا چاہتے ہیں۔

زیادہ تر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ اپنی جماعت میں اول آئے، چاہے اس کی سمجھ کچھ آئے یا نہ آئے، چاہے وہ ہر سبق کا بغیر سمجھے رٹا لگائے جائے۔

شاید اس کا سبب ہمارے تعلیمی نظام میں موجود بعض خرابیاں اور بچوں کو پڑھائی اور کیرئیر کے بارے میں مشاورت کی عدم فراہمی ہے۔

کراچی کی 'ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز' میں بچوں کے شعبے کی سربراہ پروفیسر عائشہ مہناز کا کہنا ہے کہ، "ہمارے تعلیمی نصاب میں صرف معلومات پر توجہ دی جاتی ہے۔ ہم اپنے بچوں کے رویوں پر دھیان نہیں دیتے کہ وہ بڑے ہو کر اپنے خاندان، دوستوں اور معاشرے سے کیسا برتاؤ کریں گے؟ ہمیں انہیں خاندان کا ایک اچھا فرد اور معاشرے کا ایک اچھا شہری بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔"

'وائس آف امریکہ' سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر عائشہ مہناز نے مزید کہا، "ایک بچہ آگے چل کر زندگی میں کیا کرے گا، اس کاتعین کرنے میں اس بچے کی زندگی کے ابتدائی سات آٹھ سال بہت اہم ہوتے ہیں اور ہم آج سے پچیس سال بعد اپنی نئی نسل کو کہاں دیکھنا چاہتے ہیں، اس کی پلاننگ آج سے کرنی ہوگی۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر۔"

آج ہر کوئی اپنے بچے کو ڈاکٹر، انجینئر اور کسی بھی قسم کی کوئی اور پیسے چھاپنے کی مشین بنانا چاہتا ہے لیکن پروفیسر عائشہ مہناز کا کہنا ہے کہ ہمیں مادہ پرستی چھوڑ کر اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت میں انسانیت پر زور دینا ہوگا۔

کچھ پڑھنے والوں کو اس وقت 'تارے زمین پر' اور 'تھری ایڈیٹس' جیسی بھارتی فلمیں یاد آرہی ہوں گی جن میں دکھایا گیا ہے کہ ہر بچہ الگ ہوتا ہےجس کی اپنی دلچسپیاں اور صلاحیتیں ہوتی ہیں اور والدین اور اساتذہ کو ان چھپے ہوئے ہیروں کو پہچان کر تراشنا چاہیے۔

گزشتہ 20 سال سے کراچی کی 'سینڈرا مونٹیسری' میں بچوں کو پڑھانے والی شہلا امام نے 'وائس آف امریکہ' سے پاکستان کے تعلیمی نظام کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا،"ہمارے ہاں تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی، تعلیم کی اہمیت سے ناواقفیت ، دہرا نظام تعلیم، غریب طالب علموں کی مالی معاونت نہ ہونا اور بجٹ میں تعلیم پہ بہت کم خرچ کرنا مسائل کی اہم وجوہات ہیں۔"

بچوں کے بارے میں دنیا کی مشہور ترین کتابوں میں سے ایک 'ڈاکٹر اسپاکس، بے بی اینڈ چائلڈ کیئر'کے مطابق بچوں میں سیکھنے کی زبردست صلاحیت ہوتی ہے۔ جب بچہ سیکھ رہا ہوتا ہے تو وہ عام طور پر اس چیز میں خوشی سے دلچسپی لیتا ہے جو اسے متوجہ کرے اور یہ مثبت جذبات بچے کے سیکھنے میں ایندھن کا کام کرتے ہیں۔

اس لئے ہمیں اپنے بچوں کی دلچسپی اور رجحان کا خاص خیال کرنا چاہیے اور پڑھاتے اور سکھاتے وقت ڈانٹ اور مار نہیں بلکہ پیار کا استعمال کرنا چاہئے۔
XS
SM
MD
LG