رسائی کے لنکس

افغانستان میں مشکلات کے باوجود نیٹو کمانڈر پُرامید


ایڈمرل جیمزاسٹاوریڈس (فائل فوٹو)
ایڈمرل جیمزاسٹاوریڈس (فائل فوٹو)
نیٹو کی تمام فورسز کے کمانڈر نے کہا ہے کہ طالبان پر فوجی دباؤ بہت زیادہ ہے اور اس کا ایک مقصد طالبان کے رہنماؤں کو افغان حکومت کے ساتھ کسی سیاسی تصفیے کے لیے مذاکرات پر آمادہ کرنا ہے۔

برسلز میں نیٹو کے ہیڈکوارٹرز میں وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں امریکی بحریہ کے ایڈمرل جیمزاسٹاوریڈس نے کہا کہ حالیہ مسائل کے باوجود، وہ چند سال پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ پر امید ہیں کہ جب اتحادی فوجیں دو سال سے کچھ زیادہ عرصے میں اپنا جنگی مِشن ختم کریں گی تو افغانستان مستحکم ہو چکا ہو گا ۔

ایڈمرل اسٹاوریڈس ایک طویل عرصے سے خود کو محتاط طور پر پُرامید شخص کہتے رہے ہیں۔ لیکن اب بظاہر طالبان کی سرگرمی میں اضافے اورافغان فوجیوں کے ہاتھوں بہت سے اتحادی فوجیوں کی ہلاکت کے باوجود، وہ کہتے ہیں کہ وہ کسی قدر زیادہ پُر امید ہیں۔

’’اور میں آپ کی توجہ ایک اور پیمانے کی طرف دلاؤں گا جو میرے خیال میں بہت حوصلہ افزا ہے یعنی ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد ۔ ۔ یوں تو انفرادی طور پر ہمارے لیے ان میں سے ہر ایک کا نقصان بہت بھاری ہے، لیکن مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں اتحادی فوجوں میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد تیس فیصد کم ہو گئی ہے۔‘‘

نیٹو کمانڈر نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ فوجی کارروائیوں کی قیادت اب افغان سکیورٹی فورسز کر رہی ہیں، اور اس کے نتیجے میں اُن کے ہاں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد میں 30 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اتحادی فورسز نے اندر کے لوگوں کے حملوں کا سدِباب کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ ان میں افغان سپاہیوں کی زیادہ سختی سے جانچ پڑتال اور مشترکہ کارروائیوں کے درمیان زیادہ سخت سکیورٹی کے انتظامات شامل ہیں۔

’’مجھے پورا اطمینان ہے کہ ہم اس چیلنج کا سامنا کر رہےہیں اور ہم اس سے نمٹ لیں گے ۔ اور اس سے اس مہم کو نقصان نہیں ہو گا۔‘‘

اتحادی افواج کے عہدے دار کہتے ہیں کہ مشترکہ گشت جو چند ہفتے پہلے جزوی طور پر معطل کر دیے گئے تھے، اب بڑی حد تک پھر شروع ہو گئے ہیں۔

اتحادی فوجوں کی کارروائیوں میں اصل توجہ ساڑھے تین لاکھ (350,000) فوجیو ں پر مشتمل نئی افغان سیکورٹی فورسز کی تیاری پر ہے، جو 2014 کے آخر میں بیشتر غیر ملکی فورسز کے جانے کے بعد صورتِ حال سے نمٹ سکیں گی ۔

لندن کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کلارک کہتے ہیں کہ بنیادی اہمیت اس بات کو یقینی بنانے کی ہے کہ غیر ملکی فوجوں کے جانے کے بعد اتنا زیادہ تشدد نہ ہو جس سے افغان حکومت کی فورسز نمٹ نہ سکیں۔

افغان نیشنل آرمی کے جوان (فائل فوٹو)
افغان نیشنل آرمی کے جوان (فائل فوٹو)

’’مجھے پورا یقین ہے کہ نیٹو اپنے پیچھے ایسا نظام اور ایسا ڈھانچہ چھوڑے گی جس کے کام کرنے کا معقول امکان موجود ہوگا ۔ یہ نظام کام کرے گا یا نہیں، اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ اس پر کتنا زیادہ دباؤ پڑتا ہے ۔ اگر طالبان اس نظام پر صحیح معنوں میں دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو گئے، تو مجھے یقین نہیں کہ یہ قائم رہ سکے گا۔‘‘

فی الحال، جب کہ ایک لاکھ سے زیادہ اتحادی فورسز اب بھی افغانستان میں موجود ہیں، ایڈمرل اسٹاوریڈس کو زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ طالبان پر دباؤ ڈالا جائے۔

’’میرے خیال میں باغیوں پر دباؤ بہت زیادہ ہے ۔ اور ہم جتنا زیادہ دباؤ باغیوں پر ڈالیں گے، اتنا ہی زیادہ اس تنازعے کے سیاسی تصفیے کا امکان بہتر ہو گا۔‘‘

اب تک امن مذاکرات شاذو نادر ہی ہوئے ہیں اور ان میں کامیابی نہیں ہوئی ہے ۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر افغان حکومت کی فورسز میں بہتری کا عمل جاری رہا، اوراتحادی فورسز طالبان پر حملے کرتی رہیں، تو بیشتر غیر ملکی فوجوں کی واپسی کی ڈیڈ لائن قریب آنے کے ساتھ ساتھ، تصفیے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔
XS
SM
MD
LG