رسائی کے لنکس

امریکہ شمالی کوریا پر ہر ممکن دباؤ کا حربہ استعمال کر رہا ہے


شمالی کوریا کا بین البراعظمی میزائل، فائل فوٹو
شمالی کوریا کا بین البراعظمی میزائل، فائل فوٹو

جنوری کے مہینے میں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے صدر کے طور پر ابھی حلف بھی نہیں اٹھایا تھا، ٹوئیٹر پر یہ لکھ کر کہ ایسا نہیں ہو گا، شمالی کوریا کو امریکہ تک مار کرنے کی صلاحیت رکھنے والے، جوہری طور پر مسلح کسی بین البر اعظمی بیلسٹک میزائل بنانے سے روکنے کے لیے محاذ آرائی کا ایک سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے کم یانگ ان کی حکومت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے جس میں شمالی کوریا کی فوج کے مستند خطرے اور اس کے خلاف پابندیوں میں اضافے پر زور دیا گیا ہے تاکہ وہ جوہری طور پر مسلح ریاست کی حیثیت کے اپنے دعوے سے دستبردار ہو جائے۔

سیول کی یونسی یونیورسٹی میں شمالی کوریا أمور کے ایک تجزیہ کار جان ڈلوری کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کے بارے میں وہ جو کچھ کرنے والے ہیں، اس بارے میں انہوں نے اپنی تمام توقعات سامنے رکھ دی ہیں ۔ اور اگر وہ ان تمام توقعات کو پورا نہیں کرتے تو اس سے ان کی ذات پر حرف آئے گا اور ان کے تاثر کو نقصان پہنچے گا۔

اپریل میں صدر ٹرمپ نے اسی دن جب انہوں نے چینی صدر زی جن پنگ کے ساتھ فلوریڈا میں میرالیگو کی اپنی تفریح گاہ میں کھانا کھایا، شام پر عام شہریوں کے خلاف مبینہ طور پر کیمیاوی ہتھیار استعمال کرنے کی بنا پر یک طرفہ طور پر میزائل کے ایک حملے کا حکم دیا۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے فوجی طاقت کے استعمال نے زی کو یہ پیغام بھیجا کہ اگر چین نے شمالی کوریا کے اشتعال انگیزیوں کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہ کیا تو امریکہ ایسا کرے گا۔

امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس، امریکہ کے اتحادیوں کے ساتھ امریکی وابستگی کی از سر نو تصدیق کے لیے علاقے میں آئے جب کہ انہوں نے صدر ٹرمپ کی جانب سے ایک مہم کے دوران دی جانے والی ان دھمکیوں کی اہمیت میں کمی کی کہ جب تک جنوبی کوریا اور جاپان دفاع کے شعبے میں اپنے حصے کی ادائیگی میں اضافہ نہیں کرتے وہ اپنے فوجی وہاں سے واپس بلا لیں گے۔

ٹرمپ کو جاپانی وزیر اعظم شنزو ایبے کی شکل میں شمالی کوریا کے لیے اپنی سخت پالیسی کا ایک سخت حامی مل گیا۔

تاہم جنوبی کوریا نے قدامت پسند صدر پارک کے مواخذے کے بعد آزاد خیال مور جئے ان کو منتخب کیا جو سخت مزاحمت کے حامی ہیں لیکن جزیر ہ نما کوریا پر امریکہ کی جانب سے جارحانہ فوجی طاقت کے استعمال کی مخالفت کرتے ہیں۔

سی جونگ انسٹی ٹیوٹ میں شمالی کوریا کے أمور کے ایک ماہر تجزیہ کار ڈیوڈ سٹریوب کہتے ہیں کہ صدر مون اس حوالے سے بہت واضح رہے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ جزیرہ نما کوریا پر جنگ کو اس وقت تک کوئی انتخاب نہ سمجھا جائے جب تک شمالی کوریا اس میں پہل کرتا ہے۔

اگرچہ فوجی مداخلت کے امریکی حامی شمالی کوریا کے جوہری خطرے کے خاتمے کے لیے حفظ ما تقدم کی جنگ کے حق میں دلیل دے چکے ہیں تاہم امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے انتباہ کیا ہے کہ ایسی کسی کارروائی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں ناقابل یقین پیمانے پر المناک ہوں گی۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن متعدد مواقع پر پیانگ یانگ کے راہنماؤں کے ساتھ غیر مشروط مذاكرات کی حمایت ظاہر کر چکے ہیں، لیکن ٹرمپ اپنے اعلیٰ ترین سفارت کار کی بار بار سرزنش کر چکے ہیں اور ان قیاس آرائیوں میں اضافہ کر چکے ہیں صدر جلد ہی ان کی جگہ کسی اور کو مقرر کرسکتے ہیں۔

اقوام متحدہ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے چین اور روس کو ایسی سخت تر بین الاقوامی تعزیرات کی حمایت کرنے پر قائل کر لیا ہے جو شمالی کوریا کے کوئلے اور معدنیات کی نفع بخش برآمدات پر پابندی عائد کرتی ہیں اورا س کی تیل کی ایک تہائی درآمدات کم کرتی ہیں۔

نومبر میں شمالی کوریا نے اب تک کے اپنے طاقت ور ترین میزائل کےتجربے کے بعد اعلان کیا کہ وہ بین البراعظمی میزائل تیار کرنے کی عملی صلاحیت کے حصول کے اپنے ہدف تک پہنچ گیا ہے۔

اگرچہ بہت کم لوگ جلد کسی سفارتی پیش رفت کی توقع کرتے ہیں لیکن اگر شمالی کوریا آنے والے دنوں میں جنوبی کوریا میں منعقد ہونے والے اولمپکس میں شرکت پر رضامند ہو گیا تو اشتعال انگیزیوں میں کوئی وقفہ آسکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG