رسائی کے لنکس

راز افشا ہونے کی چھان بین پر کوئی معذرت نہیں: اوباما


اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے
اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے

’ضرورت اِس بات کی ہے کہ امریکہ میں آزادی صحافت کو حاصل آئینی تحفظ اورحکومت کی خفیہ اطلاعات کو صیغہٴراز میں رکھنے کے معاملے میں توازن پیدا کیا جائے، ایسے میں جب کسی راز کے انکشاف سے امریکی خفیہ ادارے اور اہل کاروں کو کوئی خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ ہو‘

امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ قومی سلامتی سےمتعلق پوشیدہ راز کا انکشاف ہونے پر جاری فوجداری تفتیش کے معاملے پر وہ کسی طور پر’معذرت‘ کے خواہاں نہیں، جب کہ گذشتہ برس یمن میں سی آئی اے کی ایک کارروائی کی خبرپر کام کرنے والے نامہ نگاروں اور ایڈیٹروں کےٹیلی فون ریکارڈ کو غیر معمولی طور پرقبضے میں لیا گیا تھا۔

وائٹ ہاؤس کی ایک اخباری کانفرنس میں مسٹر اوباما نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ امریکہ میں آزادی صحافت کو حاصل آئینی تحفظ اورحکومت کی خفیہ اطلاعات کو صیغہٴراز میں رکھنے کے معاملے میں توازن پیدا کیا جائے، ایسے میں جب کسی راز کے افشا ہونے سے امریکی خفیہ ادارے اور اہل کاروں کو کوئی خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ ہو۔

صدر اوباما کے بقول، ’اِس لیے، مجھے کسی قسم کی معذرت کی خواہش نہیں۔ اور، میں نہیں سمجھتا کہ امریکی عوام مجھ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ میں بطورِ ’کمانڈر اِن چیف‘ کسی طور تشویش کا اظہار کروں، جِس کا تعلق ایسی اطلاعات سے ہو جِن سے قومی مفاد کے مشنز پر کوئی اثر پڑتا ہو یا اِس کے باعث اہل کاروں کو ہلاکت کا کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہو‘۔

مسٹر اوباما کا یہ تبصرہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب اِسی ہفتے یہ انکشاف ہوا کہ حکومتی استغاثے نے گذشتہ برس خبر رساں ادارے، ایسو سی ایٹڈ پریس کے ریکارڈ کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔

صدر نے ’اے پی‘ کے کیس کےبارے میں تفصیل بتانے سے احتراز کیا۔

خبروں سے متعلق امریکی اداروں نے اے پی کے ریکارڈز کو قبضے میں لینےکے اقدام پر آواز بلند کرتے ہوئے کہا ہے کہ اطلاعات سے متعلق تلاش کے دوران حکومت نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، جب کہ یہ نہیں معلوم کہ خبر رساں ادارے نے کون سے انٹرویوز کیے ہوں گے۔

اِس تناظر میں، وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اُس کی طرف سے نیوز ایجنسیوں کو ذرائع ظاہر نہ کرنے سے متعلق حاصل تحفظ کو مزید تقویت دینے کے اقدام کی حمایت کی جائے گی۔
XS
SM
MD
LG