رسائی کے لنکس

چیف جسٹس سبکدوش، وکلاء کی منقسم آراء


سپریم کورٹ کے جج صاحبان
سپریم کورٹ کے جج صاحبان

نئے چیف جسٹس تصدق جیلانی کا کہنا تھا کہ اچھی طرز حکمرانی کے لیے قانون کی بالادستی ناگزیر ہے اور اس سلسلے میں تمام اداروں بشمول عدلیہ کو اپنے آئینی دائرے میں رہتے ہوئے کردار ادا کرنا ہوگا۔

افتخار محمد چوہدری بدھ کو باضابطہ طور پر پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔ تاہم چار سال قبل ملک گیر تحریک سے بحال ہونے والے جج کے دور سے متعلق وکلاء کی آراء منقسم ہے۔

کچھ کا کہنا ہے کہ ان کا دور ملک میں آئین و قانون کی بالادستی، جمہوریت کے استحکام اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اہم تھا تو بعض کے مطابق ان کی نظر صرف ’’پالولر‘‘ مقدمات پر ہی رہی اور کئی مواقع پر عدالت نے اپنے ’’دائرہ اختیار سے تجاوز‘‘ کیا جس سے ان کے بقول عدلیہ اور مقننہ میں غیر ضروری تناؤ ہیدا ہوا۔

17 ججوں کی جانب سے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کے اعزاز میں ایک خصوصی سماعت کے دوران نئے چیف جسٹس تصدق حیسن جیلانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جسٹس چوہدری نے آئین سے انحراف کے دور کا خاتمہ اور عوامی سطح پر بنیادی حقوق اور جمہوریت کی قدر کو بڑھایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے پیش رو کا نومبر 2007ء کا فیصلہ تاریخی تھا جس میں اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی کے نفاذ کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

جسٹس تصدق کا کہنا تھا کہ اچھی طرز حکمرانی کے لیے قانون کی بالادستی ناگزیر ہے اور اس سلسلے میں تمام اداروں بشمول عدلیہ کو اپنے آئینی دائرے میں رہتے ہوئے کردار ادا کرنا ہوگا۔


تاہم وکلاء تحریک کے ایک روح رواں علی احمد کرد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس تحریک کے فلسفے کے برعکس جسٹس چوہدری نے ’’غریب عوام‘‘ کے لیے کچھ خاطر خواہ نہیں کیا۔

’’جب وہ واپس آئے تو اس وقت ان کے پاس اختیار تھے تو وہ انسانی حقوق کے سیل کو بہتر انداز میں استعمال کر سکتے تھے مگر ایسا نا ہوا اور اپنے دور کے آخری مہینوں میں اس پر کام کیا گیا۔‘‘

سنئیر قانون دان طارق محمود کے مطابق آئین میں بنیادی حقوق سے متعلق شقوں کے غیر محتاط استعمال سے بھی عوام کے مسائل کو اتنی اہمیت حاصل نا ہو سکی۔

’’بنیادی حقوق کی شق کے تحت آپ ایسے مقدمے تو اٹھا سکتے ہیں جن کے دور رس اور وسیع نتائج سامنے آئیں مگر کیا یہ ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کہ جن کی اپیلوں کو وقت نا مل سکے کیونکہ آپ دیگر مقدمات میں مصروف ہیں۔‘‘

تاہم وکلاء تحریک کے ایک اور سرگرم رہنما حامد خان جسٹس افتخار چوہدری کے دور کو عدلیہ کا ایک روشن باب گردانتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے قانون و آئین کے نفاذ سے متعلق ایک ’’نئی اور مثبت‘‘ سمت دی ہے۔

’’ہر وہ بڑا آدمی جو نیا راستہ تلاش کرتا ہے وہ متنازع ہوتا ہے۔ ابراہم لنکن امریکہ میں کافی عرصے تک انتہائی متنازع شخصیت رہا مگر اب نہیں۔ جس دور سے گزر رہے ہوتے ہیں اس میں ذاتی چپکلشیں بھی ہوتی ہیں۔‘‘

سابق جج ناصرہ جاوید کا کہنا تھا کہ جسٹس چوہدری نے اپنے دور میں از خود نوٹسز لیتے ہوئے خواجہ سراء، ہندو اور عورتوں جیسے معاشرے کے نظر انداز افراد کی آواز سنی اور ان کے حق میں فیصلے کیے۔

انھوں نے جسٹس چوہدری کی سرکاری محکموں میں بدعنوانی کے خلاف اقدامات کو سراہا۔

چیف جسٹس تصدق جیلانی نے بھی عدالت کی طرف سے از خود نوٹسز پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’یہاں پر بہت سے لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ آئین میں بنیادی حقوق سے متعلق ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے اختیارات کی وضاحت غیر واضح ہے اور ضرورت ہے کہ اس پر نظر ثانی کی جائے تاکہ جھوٹی درخواستیں دینے والوں کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ اس کا غلط استعمال نا ہو سکے۔‘‘

جسٹس افتخار چوہدری نے اپنے دور میں عدالت کے حکم کی تعمیل نا کرنے پر پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل جبکہ دوسرے وزیراعظم کو توہین عدالت پر عدالت طلب کر لیا تھا۔ انہوں نے احتساب بیورو کے سربراہ کے علاوہ کئی اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے خلاف توہین عدالت کے نوٹسس جاری کیے۔
XS
SM
MD
LG