رسائی کے لنکس

’’سماجی بہتری کے اہداف حاصل کرنے میں کارکردگی مایوس کن‘‘


’’سماجی بہتری کے اہداف حاصل کرنے میں کارکردگی مایوس کن‘‘
’’سماجی بہتری کے اہداف حاصل کرنے میں کارکردگی مایوس کن‘‘

منصوبہ بندی کمیشن کی طرف سے جاری کردہ تازہ رپورٹ میں اس سلسلے میں مایوس کن جائزہ پیش کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان کے لیے مقررہ اہداف حاصل کرنے میں بنیادی رکاوٹوں میں عالمی اقتصادی تنزلی کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والا پینتیس سے چالیس ارب ڈالر کا بھاری نقصان اور سیاسی عدم استحکام شامل ہیں۔ جب کہ سیلاب سے ملکی ڈھانچے کو جس قدر نقصان پہنچا ہے وہ آنے والے سالوں میں پاکستان کے لیے ایم ڈی جیز کا حصول مزید کٹھن بنا دے گا۔

پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بدترین سیلاب سے ہونے والی تباہی نے معیشت پر جو اثرات مرتب کیے ہیں اُس کے تناظر میں ملک کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ میلینیم ڈویلپمنٹ گولز یعنی ایم ڈی جیز کا حصول مزید مشکل ہو گیا ہے۔

ایم ڈی جیز وہ اہداف ہیں جو عالمی نتظیم نے اپنے رکن ملکوں کے لیے طے کیے ہیں جن میں2015 ء تک شدید غربت اور بھوک کا خاتمہ، سو فیصد پرائمری تعلیم یقینی بنانا، بچوں کے شرح اموات میں کمی ، ماؤں کی صحت بہتر بنانا اور ماحولیاتی بہتری شامل ہیں۔

جمعہ کو اسلام آباد میں منصوبہ بندی کمیشن کی طرف سے جاری کردہ تازہ رپورٹ میں اس سلسلے میں مایوس کن جائزہ پیش کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان کے لیے مقررہ اہداف حاصل کرنے میں بنیادی رکاوٹوں میں عالمی اقتصادی تنزلی کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والا پینتیس سے چالیس ارب ڈالر کا بھاری نقصان اور سیاسی عدم استحکام شامل ہیں۔ جب کہ سیلاب سے ملکی ڈھانچے کو جس قدر نقصان پہنچا ہے وہ آنے والے سالوں میں پاکستان کے لیے ایم ڈی جیز کا حصول مزید کٹھن بنا دے گا۔

رپورٹ میں 2006ء سے اب تک کے حالات کا احاطہ کیا گیا ہے جس میں پاکستان میں غربت کے بارے میں اعداد و شمار پر اگرچہ اختلاف پایا جاتا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ کم ہوتی مالی گنجائش کے وجہ سے حکومت نے مجبوراً کئی چیزوں پرجو سبسڈی ختم کی اس نے مزید افراد کو غربت کی طرف دھکیلا، اور ان حالات میں 2010ء تک غربت کی شرح تیرا فیصد تک کم کرنا دشوار ہے۔

اسی طرح پرائمری کی سطح پر بچوں کے اسکول میں داخلے کی شرح جسے سو فیصد تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے گذشتہ سال تک تقریباً ساٹھھ فیصد تھی لیکن اس ضمن میں مایوس کن پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ جو بچے اسکولوں میں داخل ہوئے ان میں سے پچاس فیصد نے اپنی تعلیم مکمل نہیں کی۔

بین الاقوامی امدای ادارے پہلے ہی اس تشویش کا اظہار کر چکے ہیں کہ سیلاب نے سکولوں کو جس حد تک نقصان پہنچایا ہے وہ خواندگی میں اضافےکی کوششوں کو ضرور متاثر کرے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں موجودہ شرح خواندگی اگرچہ 57 فیصد تک ہو چکی ہے لیکن یہ اب بھی 88 فیصد کے مقررہ ہدف سے بہت پیچھے ہے۔

صنفی توازن اور خواتین کو با اختیار بنانے سے متعلق ایم ڈی جیزکے بارے میں رپورٹ کا کہنا ہے کہ نوکریوں میں خواتین کی شرح کو مقررہ ہدف تک لے کر جانے میں پاکستان سست روی کا شکار ہے۔ تاہم پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی میں اضافہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ عوام کو صاف پانی کی فراہمی 1990ء میں 53 فیصد سے بڑھ کر گذشتہ سال تک اگرچہ 65 فیصد ہو گئی ہے لیکن موجودہ حالات میں اسے 93 فیصد تک لے کر جانا دشوار ہے۔

رپورٹ کے اجراء کے بعد وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر ندیم الحق نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اہداف کی طرف پیش رفت میں پاکستان کی مایوس کن کارکردگی کی ذمہ داری صرف حکومت پر ہی عائد نہیں کی جا سکتی کیوں کہ اس میں دہشت گردی اور عالمی اقتصادی تنزلی جیسے بیرونی عوامل اور ناگہانی مصیبتیں بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مقررہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ملک کو ایک نئے عزم کی ضرورت ہے اور اس کے لیے پاکستان کے ہر شہری کو اپنی انفرادی صلاحیتوں اور توانائیوں کا استعمال کرنا ہوگا ۔

XS
SM
MD
LG