رسائی کے لنکس

بھارت کو پاکستانی منڈیوں تک 'بلا امتیاز رسائی' ممکن: وزیر تجارت


خرم دستگیر کا کہنا تھا اگر رواں سال ہی دونوں ہمسایہ ملکوں میں جامع مذاکرات شروع ہوگئے تو تجارت پر ڈائیلاگ زیادہ آسانی سے مکمل کیے جا سکیں گے۔

وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت سے متعلق محصولات اور دیگر رکاوٹوں کو دور کرنے اور اسے آسان بنانے کے لئے مذاکرات بڑی حد تک مکمل ہو چکے ہیں اور رواں سال ہی میں اس پر معاہدہ ہو سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ رواں ماہ ہی جنوب ایشیائی ملکوں کی تجارت سے متعلق تنظیم سیفٹا کا بھوٹان میں اجلاس ہو رہا ہے جس موقع پر ان کی اپنے بھارتی ہم منصب سے دوطرفہ ملاقات بھی ممکن ہے۔

وزیر تجارت کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں پاکستان کاروباری شخصیات کے لیے ویزے کے اجرا میں آسانی اور پاکستان بھارت کے درمیان بینکنگ سسٹم کے قیام پر زور دے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر رواں سال ہی دونوں ہمسایہ ملکوں میں جامع مذاکرات شروع ہوگئے تو تجارت پر ڈائیلاگ زیادہ آسانی سے مکمل کیے جا سکیں گے اور بھارت کو پاکستانی منڈیوں تک بلا امتیاز رسائی فراہم کر دی جائے گی۔

"ہم بھارت کو کوئی مراعات نہیں دے رہے۔ ہم کسی چیز سے دست بردار نہیں ہو رہے۔ اگر رواں سال میں کسی وقت یہ معاہدہ ہو جائے تو بھارت سے اسی طرح پیش آیا جائے گا جس طرح دنیا کے کسی دوسرے ملک سے۔ اگر میں برازیل اور بھارت سے جوتے منگواتا ہوں تو دونوں پر یکساں ڈیوٹی لگے گی۔ یہ ہم کر رہے ہیں۔"

خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ 2012ء سے ایسی 80 فیصد اشیا بھارت سے درآمد ہو رہی ہیں جن پر پہلے پابندی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ تجارت کے شعبے میں معاہدے سے دونوں ملکوں کے درمیان دو سالوں میں تجارت کے حجم میں دو گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔

وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان چاہے گا کہ اس کی کپڑے کی مصنوعات پر عائد ان کے بقول بھاری درآمدی ڈیوٹی بھی بھارت کم کرے۔

اقتدار میں آتے ہی نواز انتظامیہ نے بھارت کے ساتھ اقتصادی و تجارتی تعلقات بڑھانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں تاہم رواں سال کے اوائل میں بھارت میں عام انتخابات کی وجہ سے تجارت پر ہونے والے مذاکرات رک گئے اور پاکستان نے بھارت کو تجارتی اعتبار سے پسندیدہ ترین ملک جیسا درجہ دینے کا فیصلہ ملتوی کر دیا۔

"یہ ہماری حکومت کے لیے ایک بار پھر پالیسی فیصلہ ہے جس پر ہم بحث کر رہے ہیں کہ ہمارے تجارت پر مذاکرات کس حد تک دوسرے مسائل و تنازعات سے متعلق پیش رفت پر منحصر ہونے چاہیئں۔"

بھارت کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سنتوش بھارتیہ کا کہنا تھا کہ نئی دہلی میں بھی اس بات کا ادراک ہے کہ باہمی و تجارتی تعلقات بڑھائے بغیر بھوک و افلاس، تعلیم و صحت جیسے مسائل پر قابو ممکن نہیں۔

"دو جگہوں کے مسائل ایک ہی ہیں اور اب دونوں جگہوں کی بیوروکریسی، آرمی اور سیاستدان یہ جانتے ہیں۔ یہ دہشت گردی اپنے آپ میں ایک صنعت بن چکی ہے۔ نریندر مودی کا جو اب تک نقشہ سامنے آیا ہے، انھوں نے سفارت کاروں کو کہا ہے کہ ان ملکوں سے ٹریڈ کیا ہو سکتی ہے وہ بتائیں۔ (تجارت پر مذاکرات کی شروعات کے لیے) تیاری کہیں نا کہیں ہو رہی ہے۔ کبھی پردے کے پیچھے کچھ نا کچھ ہوتا ہے۔"

پاکستان اور بھارت کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہے اور ان کے درمیان تین ہزار کلومیٹر لمبی سرحد ہے تاہم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دونوں ہمسایہ ملکوں کا مجموعی تجارتی حجم صرف 2.6 ارب ڈالرز ہے۔

XS
SM
MD
LG