رسائی کے لنکس

تجارتی امور پر پاکستان، بھارت اعلیٰ سطحی مذاکرات


اسلام آباد میں بھارتی سفارتخانے کے ایک عہدیدار کے مطابق اس اجلاس کا مقصد وزراء کی ملاقات کا ایجنڈا طے کرنا بھی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ تجارتی افسران کے درمیان نئی دہلی میں ہونی والی بات چیت میں پاکستانی عہدیداروں کے مطابق باہمی تجارت کے فروغ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے بارے میں ایک نئے ٹائم فریم پر اتفاق ممکن ہے۔

اسلام آباد میں بھارتی سفارتخانے کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ وزارت تجارت کے سیکرٹریز کی ملاقات میں رواں ہفتے دونوں ملکوں کے وزرائے تجارت کی بات چیت کے لیے ایجنڈا طے کیا جائے گا۔

سیاسی و جغرافیائی تنازعات کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی شعبوں کے علاوہ معاشی اور تجارتی تعاون میں بڑے پیمانے پر اضافہ نا ہو سکا۔ مگر نواز شریف حکومت سمیت کئی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کی عوام کی بہتری کے لیے یہ تعاون ناگزیر ہوچکا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سینٹ کے رکن افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ پاکستان اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اس کی خارجہ پالیسی ان لوگوں کے دباؤ پر بنائی جائے جو کہ خطے میں ’’جنگیں‘‘ چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تمام تنازعات کا سیاسی حل ضرور ہونا چاہئے مگر ان کی وجہ سے باہمی تجارت بند نہیں کی جاسکتی۔

’’چین اور بھارت میں بھی تنازعات ہیں۔ انہوں نے جنگیں بھی لڑیں لیکن اس کے باوجود ان میں تجارت ہو رہی ہے۔ امریکہ اور چین میں تجارت ہورہی ہے۔ تو آج کی دنیا میں یہ تصور نہیں ہوسکتا کہ آپ پڑوسی ممالک سے تجارت نا کریں۔‘‘

افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ’’انتہا پسند‘‘ سوچ رکھنے والوں نے ملک کی خارجہ پالیسی پر ان کے بقول قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

پاکستان اور بھارت تجارت کے شعبے میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کے متعدد معاہدوں پر دستخط کر چکے ہیں مگر ماہرین و مبصرین کے مطابق سیاسی و سلامتی سے متعلق خدشات و تحفظات کی وجہ سے ان پر اب تک عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔

گذشتہ برس دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد نواز شریف انتظامیہ کی طرف سے بھارت کو ’’فی الحال‘‘ تجارت کے لیے انتہائی مراعات یافتہ یا موسٹ فیورڈ نیشن (ایم ایف این) کا درجہ دینے کا اعلان نہیں کیا جائے گا۔

سابق وفاقی وزیر تجارت ہمایوں اختر کا کہنا تھا کہ اس وقت باہمی تجارت کے اعتبار سے بھارت کا پلڑا بھاری ہے جو کہ ایم ایف این اور کچھ اور اقدامات سے پاکستان کے حق میں کافی حد تک بہتر ہو سکتا ہے۔

’’ہمیں باہمی تجارتی معاہدہ کرنا چاہئے جس کے تحت ان مصنوعات کی تجارت پر مزید مراعات دینی چاہیئں جو کہ بھارت اور پاکستان سمجھتے ہیں کہ ان کی صنعت کے لیے خطرہ نہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی تاجروں کو بھارت میں کئی نان ٹیرف بیریئرز کا سامنا ہے جس پر ابھی تک کچھ نہیں ہوا تو اسے بھی دور کرنا چاہئے تو یہ دونوں کے لیے فائدہ مند ہوگا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عمومی طور پر ایم ایف این کے بارے میں غلط فہمی پائی جاتی ہے جس وجہ سے کوئی حکومت بھی بھارت کو یہ درجہ دینے سے کتراتی ہے۔

’’تجارت اتنی ٹیکنیکل چیز ہوتی ہے کہ لوگوں کو سمجھ ہی نہیں ہے۔ ایم ایف این کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کوئی اسپیشل مراعات دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ (تجارت سے متعلق مراعات پر) آپ دنیا کے مختلف ممالک میں تفریق نہیں کریں گے۔‘‘

بھارت پاکستان کو موسٹ فیورڈ نیشن کا درجہ دے چکا ہے۔

کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیائی ایٹمی طاقتوں کے تعلقات عموماً معمول پر نا ہونے کی وجہ سے علاقائی تنظیمیں قدرے غیر موثرہو کر رہ گئی ہیں اور خطے کی ترقی اور خوشحالی پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
XS
SM
MD
LG