پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ زیریں میں حزبِ اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے احتساب کے قومی ادارے کے نئے سربراہ کی حالیہ تقرری کے خلاف درخواست عدالتِ عظمی میں جمع کروا دی ہے۔
قومی اسمبلی میں حزب اقتدار و اختلاف کے قائدین نے کئی ہفتوں کی مشاورت کے بعد نیشنل اکاؤنٹیبلیٹی بیورو (نیب) کے چیئرمین کے عہدے کے لیے بالآخر رواں ماہ چودھری قمر زمان کے نام پر اتفاق کیا تھا، لیکن حزب اختلاف کی بعض جماعتیں روزِ اول سے ہی اس تقرری پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ تقرری کے عمل میں آئینی تقاضے پورے نہیں کیے گئے اور اس ہی موقف کی بنیاد پر جماعت کے سربراہ عمران خان کی طرف سے ایک درخواست منگل کو عدالتِ عظمیٰ میں داخل کروائی گئی۔
اس درخواست کے قابلِ سماعت ہونے سے متعلق عدالت کا فیصلہ آئندہ چند روز میں متوقع ہے۔
عمران خان کے وکیل حامد خان نے بتایا کہ درخواست میں جن اعتراضات کا ذکر کیا گیا ہے اُن میں مشاورتی عمل میں نقائص اور قمر زمان کی اس عہدے کے لیے موزونیت شامل ہیں۔
’’(مشاورتی عمل) کی روح ہے کہ حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے، تو ہماری جماعت جو کہ (حزب اختلاف کا) اہم حصہ ہے اس کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہ ایک نقص ہے کیوں کہ ساری جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیئے تھا ... (اور پھر) دونوں جماعتیں جنھوں نے یہ فیصلہ کیا ہے ان کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات زیرِ التوا ہیں اور اس (فیصلے) کا ان پر ہی اثر ہوگا، تو یہ ملی بھگت نظر آتی ہے۔‘‘
قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے قمر زمان کے نام پر اتفاق رائے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُنھوں نے تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں سے اُن کی جماعت کا موقف جاننے کی کوشش کی مگر اُن کی جانب سے دوبارہ رابطہ نہیں کیا گیا۔
دریں اثنا اسلام آباد میں ایک احتساب عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے زیرِ التوا مقدمات کی بحالی سے متعلق سماعت 26 نومبر تک ملتوی کر دی۔
پیپلز پارٹی کے رکن اور سابق وزیرِ قانون فاروق حمید نائیک نے عدالت کو بتایا کہ سابق صدر ذاتی مصروفیات کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکے۔ اُنھوں نے مقدمے کی تیاری کے لیے مزید وقت دیے جانے کی استدعا بھی کی۔
آصف زرداری کے خلاف مختلف منصوبوں میں مبینہ بد عنوانی اور ذاتی استعمال کے لیے سرکاری وسائل سے پولو گراؤنڈ بنوانے سمیت پانچ ریفرنسز 1990ء کی دہائی میں بنائے گئے تھے۔
احتساب عدالت نے آصف زرداری کی مدتِ صدارت مکمل ہونے پر اُنھیں حاصل استثنیٰ کے خاتمے کے بعد قانونی کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے سابق صدر کے علاوہ قومی احتساب بیورو کے وکیل کو رواں ماہ نوٹس جاری کیے تھے۔
قومی اسمبلی میں حزب اقتدار و اختلاف کے قائدین نے کئی ہفتوں کی مشاورت کے بعد نیشنل اکاؤنٹیبلیٹی بیورو (نیب) کے چیئرمین کے عہدے کے لیے بالآخر رواں ماہ چودھری قمر زمان کے نام پر اتفاق کیا تھا، لیکن حزب اختلاف کی بعض جماعتیں روزِ اول سے ہی اس تقرری پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ تقرری کے عمل میں آئینی تقاضے پورے نہیں کیے گئے اور اس ہی موقف کی بنیاد پر جماعت کے سربراہ عمران خان کی طرف سے ایک درخواست منگل کو عدالتِ عظمیٰ میں داخل کروائی گئی۔
اس درخواست کے قابلِ سماعت ہونے سے متعلق عدالت کا فیصلہ آئندہ چند روز میں متوقع ہے۔
عمران خان کے وکیل حامد خان نے بتایا کہ درخواست میں جن اعتراضات کا ذکر کیا گیا ہے اُن میں مشاورتی عمل میں نقائص اور قمر زمان کی اس عہدے کے لیے موزونیت شامل ہیں۔
’’(مشاورتی عمل) کی روح ہے کہ حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے، تو ہماری جماعت جو کہ (حزب اختلاف کا) اہم حصہ ہے اس کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہ ایک نقص ہے کیوں کہ ساری جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیئے تھا ... (اور پھر) دونوں جماعتیں جنھوں نے یہ فیصلہ کیا ہے ان کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات زیرِ التوا ہیں اور اس (فیصلے) کا ان پر ہی اثر ہوگا، تو یہ ملی بھگت نظر آتی ہے۔‘‘
قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے قمر زمان کے نام پر اتفاق رائے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُنھوں نے تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں سے اُن کی جماعت کا موقف جاننے کی کوشش کی مگر اُن کی جانب سے دوبارہ رابطہ نہیں کیا گیا۔
دریں اثنا اسلام آباد میں ایک احتساب عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے زیرِ التوا مقدمات کی بحالی سے متعلق سماعت 26 نومبر تک ملتوی کر دی۔
پیپلز پارٹی کے رکن اور سابق وزیرِ قانون فاروق حمید نائیک نے عدالت کو بتایا کہ سابق صدر ذاتی مصروفیات کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکے۔ اُنھوں نے مقدمے کی تیاری کے لیے مزید وقت دیے جانے کی استدعا بھی کی۔
آصف زرداری کے خلاف مختلف منصوبوں میں مبینہ بد عنوانی اور ذاتی استعمال کے لیے سرکاری وسائل سے پولو گراؤنڈ بنوانے سمیت پانچ ریفرنسز 1990ء کی دہائی میں بنائے گئے تھے۔
احتساب عدالت نے آصف زرداری کی مدتِ صدارت مکمل ہونے پر اُنھیں حاصل استثنیٰ کے خاتمے کے بعد قانونی کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے سابق صدر کے علاوہ قومی احتساب بیورو کے وکیل کو رواں ماہ نوٹس جاری کیے تھے۔