رسائی کے لنکس

29 اراکین اسمبلی کی ڈگریاں جعلی


پاکستان کی قومی اسمبلی
پاکستان کی قومی اسمبلی

ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے مشیر محمود رضانے منگل کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے بتایا کہ اُن کے ادارے نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے جن اراکین کی ڈگریوں کی اب تک چھان بین کی ہے ان میں سے 29 کی اسناد جعلی ثابت ہو چکی ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کی کل تعداد 1170 ہے اور پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کی طرف سے تصدیق کے لیے 1065بھجوائی گئی تھیں جن میں سے بیشتر کی جانچ پڑتال کا کام مکمل ہوچکا ہے
اور کمیشن حتمی فہرست 16 جولائی سے پہلے پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دے گا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ عدالت عظمیٰ نے بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ مل کر تمام اراکین کی تعلیمی اسناد کی جانچ پڑتال کرکے عدالت کو ان ممبران پارلیمان کی تفصیلات سے آگاہ کرے جو جعلی تعلیمی اسناد کے سہارے انتخابات جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں۔

ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں بعض اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی تعلیمی اسناد کے بارے میں اُن کے سیاسی مخالفین کی طرف سے دائر مقدمات کے بعد کم از کم ایک درجن اراکین پہلے ہی اپنے عہدوں سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ اب تک جن ارکان کی ڈگریاں جعلی ثابت ہوئی ہیں ان میں بڑی تعداد کا تعلق اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن اور حکمران پیپلز پارٹی سے ہے۔

جعلی ڈگریوں کے معاملے پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو خصوصاََ مقامی میڈیا میں کڑی تنقید کا سامنا ہے جس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی نے گزشتہ جمعہ کو بغیر کسی مخالفت کے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں نجی ٹی وی چینلز پر الزام لگایا گیا کہ وہ جعلی ڈگریوں کے معاملے پر اراکین اسمبلیوں پر غیر ضروری” کیچڑ“ اچھال کر ان کی تضحیک کر رہے ہیں۔

اس قرارداد پر پنجاب اسمبلی کو میڈیا کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کر نا پڑا ہے اور وہ ارکان پنجاب اسمبلی سے اس قرارداد کو واپس لینے کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

جعلی ڈگریوں کے معاملے پر ملک کی تقریباََ ہر جماعت سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں متعارف کرائے گئے اُس قانون کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے جس میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کے لیے بی اے کی ڈگری کی شرط رکھی تھی ۔ سیاسی جماعتوں کا مانناہے کہ یہ قانون جمہوری تقاضوں کے منافی تھا اور جسے اب اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کردیا گیا ہے۔

لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر قانون ساز ادارے کا رکن بننے والاخود ہی قانون توڑ کر اس منزل تک پہنچا ہے تو اس کے پاس قانون کی بالادستی کا پرچار کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔

XS
SM
MD
LG