رسائی کے لنکس

وزیراعظم نواز شریف کا دورہ سعودی عرب


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

تیل کی دولت سے مالا مال ملک سعودی عرب معاشی مشکلات کو کم کرنے کے لیے پاکستان کی مدد کرتا آیا ہے۔ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کی طرف سے ملک کی قیادت سنبھالنے کے بعد پاکستانی وزیراعظم کا سعودی عرب کا یہ پہلا دورہ ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کی دعوت پر بدھ سے سعودی عرب کا تین روزہ دورہ کر رہے ہیں۔

اس دورے میں دوطرفہ تعلقات کے علاوہ عالمی اور علاقائی اُمور سے متعلق معاملات پر بھی بات چیت کی جائے گی۔

شام اور عراق میں شدت پسند گروپ ’داعش‘ کی کارروائیوں کے مشرق وسطیٰ اور عالمی سطح پر اثرات پر بھی اس دورے میں بات چیت متوقع ہے کیوں کہ پاکستان بھی اس وقت اندرون ملک دہشت گردوں کے خلاف ایک بھرپور کارروائی میں مصروف ہے۔

رواں سال جنوری میں پاکستانی وزیراعظم نے سعودی عرب کا دو مرتبہ دورہ کیا۔ پہلے وہ سعودی عرب کے سابق فرمانروا عبداللہ بن عبد العزیز کی عیادت اور پھر اُن کے انتقال پر اُن ک نماز جنازہ میں شرکت کے لیے سعودی عرب گئے تھے۔

وزیراعظم نواز شریف سعودی عرب کا یہ دورہ ایسے وقت کر رہے ہیں جب حالیہ مہینوں میں پاکستان میں بعض حلقوں کی جانب سے سعودی عرب پر تنقید بھی کی گئی اور اس کی وجہ مبینہ طور پر اپنے نظریات کے پرچار کے لیے سعودی عرب کی طرف سے بعض پاکستانی مدارس اور مذہبی شخصیات کو رقوم کی فراہمی بنی۔

لیکن سعودی عرب کے اسلام آباد میں سفارت خانے نے ایسی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ صرف حکومت پاکستان کی منظوری کے بعد ہی سعودی عرب کی طرف سے رقوم فراہم کی جاتی ہیں۔

تیل کی دولت سے مالا مال ملک سعودی عرب معاشی مشکلات کو کم کرنے کے لیے پاکستان کی مدد کرتا آیا ہے۔

سعودی عرب روانگی سے قبل ایک بیان میں وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستانیوں کے دل میں سعودی عرب کے لیے ایک خاص مقام ہے اور اُن کے بقول دونوں ملکوں کے تعلقات گزرتے وقت کے ساتھ مضبوط ہوئے ہیں۔

بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کی طرف سے ملک کی قیادت سنبھالنے کے بعد پاکستانی وزیراعظم کا سعودی عرب کا یہ پہلا دورہ ہے۔

وزیراعظم کے ساتھ سعودی عرب جانے والے وفد میں پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی شامل ہیں۔

سعودی عرب میں لگ بھگ 17 لاکھ پاکستانی روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں اُن کی طرف سے زرمبادلہ کی صورت میں پاکستان بھیجی جانے والی رقوم ملک کے معاشی استحکام کے لیے اہم سمجھی جاتی ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارتی حجم ساڑھے چار ارب ڈالر سے زائد ہے۔

واضح رہے کہ حالیہ مہینوں میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود بھی سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG