رسائی کے لنکس

دہری شہریت سے متعلق قانون میں ترمیم کا عندیہ


الیکشن کمیشن کی طرف سے ناکافی اقدامات کی وجہ سے گزشتہ انتخابات میں بیرون وطن مقیم پاکستانی حق رائے دہی بھی استعمال نہیں کر پائے۔

وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں سے متعلق آئین کی ’’امتیازی‘‘ شقوں میں ترمیم کرنے پر غور کیا جائے گا۔

اپنے دورہ امریکہ میں وہاں مقیم پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اندرون اور بیرون ملک رہنے والے تمام پاکستانی محب وطن ہیں اور دہری شہریت رکھنے پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہیں رکھنا چاہیے۔

’’ہمیں اس تفریق کو ختم کرنے کے لیے آئین میں ترامیم کے بارے میں ضرور غور کرنا ہوگا۔‘‘

نواز شریف نے سمندر پار پاکستانیوں پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کریں اور اس کے لیے انہیں مراعات اور سہولتیں فراہم کرنے کی غرض سے حکومت بہت جلد ایک خصوصی پیکج کا بھی اعلان کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے شفافیت کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیرون مقیم پاکستانیوں کی تعداد تقریباً 45 لاکھ ہے۔

پاکستان کے آئین کے تحت دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کے قانون ساز بننے پر قدغن ہے اور پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں سپریم کورٹ کے حکم پر ایسے کئی اراکین پارلیمان کی رکنیت منسوخ بھی کی گئی۔

سمندر پار پاکستانیوں کی فاؤنڈیشن کی گورننگ باڈی کے ممبر اور وفاقی قانون ساز عثمان خان تراکئی نے 'وائس آف امریکہ' سے بدھ کو گفتگو میں اس پابندی کے خاتمے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کے اعتماد میں ان کے بقول مزید اضافہ ہوگا۔

’’گزشتہ حکومت میں دو مرتبہ پارلیمان میں یہ ترمیم لائی گئی اور اس کی کوئی ایسی مخالفت نہیں کی گئی مگر سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن نے اس کی سخت مخالفت کی۔ ہم نے دیکھا کہ جو لوگ 30 سال پہلے کہیں گئے تھے، اب ان کے بچے ڈاکٹر، انجینئر یا دیگر شعبوں کے ماہر بننے کے بعد وطن آکر پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں۔‘‘

الیکشن کمیشن کی طرف سے ناکافی اقدامات کی وجہ سے گزشتہ انتخابات میں بیرون وطن مقیم پاکستانی حق رائے دہی بھی استعمال نہیں کر پائے۔

تراکئی کا کہنا تھا کہ ان تمام ’’ناخوش گوار‘‘ واقعات کے باوجود سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے ملک بھیجے جانے والی ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے۔

وزیراعظم یہ کہہ چکے ہیں کہ کمزور معیشت کی بحالی ان کی حکومت کی ترجیحات میں سر فہرست ہے۔ قومی اسمبلی کے رکن عثمان تراکئی کہتے ہیں کہ نواز شریف کے پیغام کو نا صرف امریکہ بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کو بھی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

’’دو دہائیوں سے ملک میں سلامتی کے خدشات اور (سیاسی) عدم استحکام کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری شدید متاثر ہوئی۔ مگر اب یہ پیغام باہر گیا ہے کہ یہاں جمہوریت استحکام کی راہ پر گامزن ہے تو ان حالات میں وہ جو کچھ کریں گے وہ اس ملک اور قوم کے لیے تحفہ ہوگا۔‘‘

ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے نواز انتظامیہ نے حال ہی میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے 6 ارب 70 کروڑ ڈالر کے قرضے کے حصول کا معاہدہ کیا ہے جبکہ سرکاری اعداد شمار کے مطابق اس وقت پاکستان پر 15 کھرب روپے کے قرضوں کا بوجھ ہے۔
XS
SM
MD
LG