رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ: کالعدم تنظیموں، این جی اوز کی نگرانی کی رپورٹ طلب


پاکستان کی عدالت عظمیٰ
پاکستان کی عدالت عظمیٰ

جسٹس خواجہ کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اس پر عملدرآمد نہیں کرسکتی تو اسے صرف "کاغذ کا ایک پرزہ" قرار دے دے۔

پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے ایک سینیئر جج نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے وضع کردہ قومی لائحہ عمل سے متعلق حکومت کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

شائع شدہ اطلاعات کے مطابق جمعہ کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ چھ ماہ گزرنے کے باوجود قومی لائحہ عمل کے تحت کوئی نمایاں کارکردگی دیکھنے میں نہیں آئی۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں قائم بینچ نے چاروں صوبوں کے حکام سے کہا ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں سرگرم کالعدم اور وہاں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی نگرانی سے متعلق کیے جانے والے اقدامات سے بھی عدالت کو آگاہ کریں۔

جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ مالی اعانت ایسی تنظیموں کے اپنا کام جاری رکھنے کے لیے بنیادی عنصر ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت اُن کیفنڈنگکو روکنے میں ناکام رہی ہے۔

تین رکنی بینچ ایک غیر سرکاری تنظیم کے کارکن کے خلاف مالی بے ضابطگی کے مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔

اس موقع پر عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت غیر سرکاری تنظیموں کی کارروائیوں کی نگرانی کے لیے اقدام کر رہی ہے۔

گزشتہ دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت کے اتفاق رائے سے ایک قومی لائحہ عمل ترتیب دیا گیا تھا جس کا مقصد ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کو یقینی بنانا تھا۔

جسٹس خواجہ کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اس پر عملدرآمد نہیں کرسکتی تو اسے صرف "کاغذ کا ایک پرزہ" قرار دے دے۔

حکومت میں شامل عہدیدار بشمول وزیر داخلہ حالیہ ہفتوں میں یہ کہتے آئے ہیں کہ قومی لائحہ عمل کے تحت بھرپور طریقے سے سرگرمیاں جاری ہیں اور ملک کے مختلف حصوں سے انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کارروائیاں کرتے ہوئے درجنوں دہشت گردوں اور ان کے معاونین کو حراست میں لیا گیا۔

عہدیداروں کے بقول دہشت گردوں کے معاونین اور انتہا پسندی کو بڑھاوا دینے والوں کے خلاف بھی کارروائیاں کی گئیں جب کہ ایسا مواد بھی قبضے میں لیا گیا جو ملک میں انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔

قومی لائحہ عمل وضع کیے جانے سے پہلے ہی سے پاکستانی فوج نے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کر دی تھی جس کے حکام کے بقول قابل ذکر نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے نوے فیصد علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کیے جانے کے سرکاری دعوؤں کے بعد یہ بتایا گیا تھا کہ افغان سرحد سے ملحقہ دشوار گزار علاقے شوال میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔

جمعہ کو فوج کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے شمالی وزیرستان میں اگلے مورچوں کا دورہ کیا اور آپریشن میں حصہ لینے والے اہلکاروں سے ملاقات کی۔

بیان میں بتایا گیا کہ جنرل راحیل کا کہنا تھا کہ فوج پاکستان کو دہشت گردی سے پاک ملک بنانے کے مقصد کے حصول تک اپنا کام جاری رکھے گی۔

اس موقع پر آرمی چیف نے شوال کے علاقے میں پہاڑی چوٹیوں سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے والے فوجی جوانوں سے ملاقات کی اور انھیں اس کامیابی پر سراہا۔

فوجی حکام کے مطابق شمالی وزیرستان میں ایک سال قبل شروع کیے گئے آپریشن ضرب عضب میں اب تک 2700 سے زائد دہشت گرد مارے جا چکے ہیں جن میں غیر ملکی عسکریت پسند بھی شامل ہیں جب کہ ان شر پسندوں کے سیکڑوں ٹھکانوں کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔

فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد ملک میں دہشت گردی کے واقعات تو رونما ہوتے رہے ہیں لیکن ماضی کی نسبت ان کی تعداد میں قابل ذکر حد تک کمی دیکھی جا رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG