رسائی کے لنکس

دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مشاورتی عمل میں تیزی


حالیہ ہفتوں میں دہشت گردانہ واقعات میں اضافہ ہوا ہے
حالیہ ہفتوں میں دہشت گردانہ واقعات میں اضافہ ہوا ہے

قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمان سے بھی وزیراعظم مشاورت کرنے جارہے ہیں جس میں سلامتی کے امور زیر غور آئیں گے۔

وزیراعظم نواز شریف نے شدت پسندی سے نمٹنے سے متعلق ایک ’’متفقہ لائحہ عمل‘‘ مرتب کرنے سے پہلے قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کے ساتھ مشاورت کرنے کی غرض سے بدھ کو ایک اجلاس طلب کیا ہے۔

اس سلسلے میں ان کے سیاسی امور کے سیکرٹری آصف کرمانی نے پیر کو قومی اسمبلی کے اراکین اور سینیٹرز کو دعوت نامے ارسال کیے۔ حکام کے بقول اس اجلاس میں ’’سلامتی اور سکیورٹی‘‘ کے امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفگتو کرتے ہوئے قبائلی علاقوں سے منتخب ہونے والے اراکین پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کو شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ایسے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیئں جس سے ملک میں دیرپا امن کا قیام ممکن ہو۔

باجوڑ سے قومی اسمبلی کے آزاد رکن بسم اللہ خان کہتے ہیں کہ شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کو ضرور ایک موقع دینا چاہیے۔

’’ہر جنگ کے بعد صلح یا مذاکرات ہوتے ہیں۔ جب مذاکرات شروع ہوں تو انہیں (شدت پسندوں) کہنا پڑے گا کہ پاکستان ایک ملک ہے۔ اس کا ایک آئین ہے۔ آپ بھی پاکستانی ہیں اور ملک کے نفع نقصان میں شریک ہیں۔ یہ شدت پسند باہر سے تو نہیں آسکتے مگر باہر کا ہاتھ ہوسکتا ہے جو انہیں استعمال کررہا ہے۔‘‘

جمیعت علماء اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی محمد جمال الدین کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں سے مذاکرات اگر خلوص نیت سے کیے گئے تو ان سے بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔

’’حل کے لیے ہم مل کر بیٹھ جائیں اور کھل کر ایک دوسرے کے سامنے رکھیں کہ یہ پاکستان کی بقاء کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اس کا فائدہ ہمیں نہیں ہمارے دشمنوں کو مل رہا ہے۔ جب ہم ایسا سوچیں گے تو دونوں فریق (عسکریت پسند اور فوج) جو لڑرہے ہیں آپس میں مذاکرات کے لیے آمادہ ہوجائیں گے۔‘‘

شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے ماضی میں بھی کیے گئے مگر گزشتہ ایک دہائی میں دہشت گردی کے واقعات میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 40 ہزار پاکستانی ہلاک ہوئے اور ملک کی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں سے مذاکرات ملک کے آئین اور قانون کے مطابق ہونے چاہیں اور اس مجوزہ بات چیت کے عمل میں بالادستی حاصل کرنے کے لیے حکومت کو میدان جنگ میں عسکریت پسندوں پر واضح برتری بھی حاصل کرنا ہوگی۔

ملک میں حال ہی میں شدت پسنوں کے پے در پے مہلک حملوں کے بعد موجودہ حکومت کی طرف سے دہشت گردی کے مسئلے کے حل پر ایک حکمت عملی بنانے سے متعلق اقدامات میں تیزی دیکھی جارہی ہے۔ جمعے کو پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کا اجلاس بھی بلایا گیا ہے۔

موجودہ حکومت توانائی کے بحران کے خاتمے اور معیشت کی بحالی کے لیے سرتوڑ کوششیں کررہی ہے مگر وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ حکومت دہشت گردی کے مسئلے کے حل کے لیے بھی سنجیدہ ہے۔

’’ایک ایجنڈا ہے کہ کس طرح پاکستان کو محفوظ اور پر امن بنایا جائے۔ توانائی کا بحران حل ہوجائے اور ملک میں قتل و غارت گری جاری رہے تو توانائی کے بحران کے حل سے جو فوائد حاصل ہونے ہیں ان سے ہم محروم ہو جائیں گے۔‘‘

انہوں کہا کہ جمعے کو ہونے والے اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے شرکت پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
XS
SM
MD
LG