رسائی کے لنکس

از خود نوٹس کے عمل کے لیے باضابطہ طریقہ کار پر زور


چیف جسٹس چوہدری کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں
چیف جسٹس چوہدری کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا کہ عدلیہ 2007ء کے بعد جمہوریت کی سب سے بڑی حمایتی بن کر ابھری ہے اور ماضی کی طرح کسی بھی غیر جمہوری عمل کی توثیق کرنے کو تیار نہیں۔

بین الاقوامی جوڈیشل کونسل کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں معاشروں کی ترقی کی بنیاد اداروں کی مضبوطی پر ہے اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں چند افراد پر تکیہ کرنے کی بجائے عدلیہ کو بحیثیت ادارہ مضبوط کیا جائے۔

اسلام آباد میں ہونے والی اس تین روزہ کانفرنس میں منتظمین کے مطابق امریکہ، بھارت، برطانیہ، ترکی، اور افغانستان سمیت 19 ممالک سے ججوں اور قانونی ماہرین نے شرکت کی اور ان تجربات اور تاثرات کا تبادلہ خیال کیا جن سے معاشرے میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے میں عدلیہ کے کردار کو موثر بنایا جا سکے۔

کانفرنس کے اختتام پر ایک اعلامیہ منظور کیا گیا جس میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے درپیش دہشت گردی کے خاتمے کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے اعلامیہ میں اس متعلق قانونی اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جن میں شدت پسندوں کے خلاف موثر اور فعال استغاثہ، مزید سخت قوانین بنانا اور دیگر ممالک سے معاونت کرنا شامل ہیں۔

کانفرنس میں عدالتوں کی جانب سے مختلف امور پر از خود نوٹس لینے کے عمل کو ایک باقاعدہ واضح ضابطہ کار میں لانے پر زور دیا گیا۔

کانفرنس میں شامل سینئیر قانون دان طارق حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’توہین عدالت کی وجہ سے میں زیادہ نہیں کہہ سکتا مگر سپریم کورٹ پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ مقدمات کو اٹھانے سے متعلق بہت زیادہ سیلکٹوو ہے۔ از خود نوٹس لینے کے عمل کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا عمل نا ہو کہ جو آپ چاہیں وہ مقدمہ اٹھالیں اور جو نا چاہیں وہ ایسے ہی پڑے رہیں۔‘‘

تاہم چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنی تقریر میں ججوں کی تعریف اور مختلف مقدمات کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں آئین و قانون کی پاسداری اور طرز حکومت میں بہتری صرف اور صرف عدلیہ کے بھرپور کردار کی وجہ سے آئی ہے۔

’’ہمارا مقصد ایک ہے کہ جو انصاف کے متلاشی اور ضرورت مند ہیں ان کے معاملات جلد سے جلد حل کریں۔ اگر کوئی برائی ہوگی کسی بھی نظام میں تو اسے ٹھیک کرنا آپ کا اور ہمارا کام ہے لیکن آئین کے دائرے کے تحت۔‘‘

پاکستان میں سست عدالتی نظام کے باعث عمومی طور پر مقدمات سال ہا سال التواء کا شکار رہتے ہیں اور مختلف اعدادوشمار کے مطابق ہزاروں مقدمات اب بھی ذیلی عدالتوں میں اپنے منتقی انجام کے منتظر ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا کہ عدلیہ 2007ء کے بعد جمہوریت کی سب سے بڑی حمایتی بن کر ابھری ہے اور ماضی کی طرح کسی بھی غیر جمہوری عمل کی توثیق کرنے کو تیار نہیں۔
XS
SM
MD
LG