رسائی کے لنکس

گھریلو ناچاقی کے باعث برطانیہ میں بچوں کے اغوا میں اضافہ:رپورٹ


ری یونائٹ کی چیف ایگزیکٹیو ایلسن شلابی کے مطابق والدین کے ہاتھوں اغوا کے مقدمات کسی خاص عقیدے یا خاص ملک سے تعلق نہیں رکھتے ہیں بلکہ ایسے واقعات فرانس اور پولینڈ سے لے کر تھائی لینڈ، پاکستان اور آسٹریلیا تک میں دیکھے جاتے ہیں۔

ایک سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں گھریلو ناچاقی کے باعث والدین کے ہاتھوں برطانوی بچوں کے اغوا کی کارروائیوں اور تحویل کے مقدمات میں دوگنا اضافہ ہوا ہے ۔

وزارت خارجہ اور فلاحی تنظیم ’ری یو نائٹ‘ کی ایک مشترکہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں برس کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ہر روز تقریباً دو بچے والدین کے ہاتھوں اغوا کر لیے جاتے ہیں ۔

والدین کے لیے مشورہ اور تعاون فراہم کرنے والی فلاحی تنظیم ری یونائٹ کے مطابق رواں برس اغوا کے 447 نئے کیس نمٹائے گئے جن میں بچوں کی تعداد 616 تھی جبکہ 2003-04 میں وزارت خارجہ کو بیرون ملک تحویل کے 272 مقدمات میں مداخلت کرنی پڑی لیکن 2012 اور 2013 کے درمیانی عرصے میں ایسے کیسوں کی تعداد 580 کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی ۔

یو کے ڈاٹ گورنمنٹ سے جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز میں خارجہ امور کے کونسلر وزیر مارک سمنز نے کہا کہ’’ والدین کے ہاتھوں بچوں کے اغوا کے مقدمات میں اضافے پر مجھے گہری تشویش ہے اسی لیے کرسمس سے قبل ایک آگاہی مہم کا آغاز کیا جا رہا ہے تاکہ والدین کو اس طرح کی کارروائی سے روکا جاسکے جس کی وجہ سے انھیں ان کے خاندان اور سب سے بڑھ کر ان کے بچے کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اکثر والدین یہ نہیں جانتے ہیں کہ اپنے بچے کا اغوا ایک جرم ہے۔‘‘

ری یونائٹ کی چیف ایگزیکٹیو ایلسن شلابی کے مطابق والدین کے ہاتھوں اغوا کے مقدمات کسی خاص عقیدے یا خاص ملک سے تعلق نہیں رکھتے ہیں بلکہ ایسے واقعات فرانس اور پولینڈ سے لے کر تھائی لینڈ، پاکستان اور آسٹریلیا تک میں دیکھے جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ عام طور پر والدین کے ہاتھوں بچوں کے اغوا کے واقعات ایسی صورت میں زیادہ رونما ہوتے ہیں جب ماں اور باپ دو مختلف ملکوں کے شہری ہوں۔ ’’ایسے گھرانوں میں جہاں میاں بیوی کے درمیان کشیدگی موجود ہوتی ہے ان کے لیے موسم گرما کی اسکول کی چھٹیاں ایک موزوں وقت ہوتا ہے جب بچے کو گھومانے پھرانے کے بہانے ملک سے باہر لے جایا جاتا ہے اس سلسلے میں ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ عام تاثر کے برعکس باپ کے مقابلے میں بچےماؤں کے ہاتھوں زیادہ اغوا ہوتے ہیں۔ اعداوشمار کے مطابق ،بچوں کو اغوا کرنے والی 70 فیصد مائیں ہوتی ہیں ۔‘‘

انھوں نے مزید کہا کہ اغوا کے کیسز کو حل کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں کئی باردس برس کا عرصہ بھی لگ جاتا ہےاس کشمکش کے دوران بچے کے خاندان اور بچے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اکثر بچوں کو واپس لانے کی تمام کوششیں رائیگاں چلی جاتی ہیں اور بچوں کی واپسی ممکن نہیں ہو پاتی پے ۔

ایسی صورت حال کا سامنا اس وقت کرنا پڑتا ہے جب والدین بچوں کو ایسے ملکوں میں لے جاتے ہیں جو 1940 کے ہیگ عالمی معاہدے میں شامل نہیں جس کے تحت اغوا ہونے والے بچوں کو واپس لایا جا سکتا ہے ۔ پاکستان ،بھارت ،تھائی لینڈ، جاپان، فرانس، مصر، متحدہ امارات، فلپائن اور افغانستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ہیگ معاہدے پر دستخط نہیں کئے ہیں ۔

دفترخارجہ اور دو فلاحی تنظیموں ’’فیملیز نیڈز فادر‘‘ اور ’’ممز نیٹ‘‘ کے ذریعے 12 دسمبر سے ایک آن لائن سوالات کی مہم شروع کی گئی ہے۔ دفترخارجہ کی جانب سے اس اہم مسئلے پر ایک خصوصی فلم بھی جاری کی گئی ہے تاکہ اس اقدام سے پہلے والدین کو سوچنے پر آمادہ کیا جاسکے تاکہ بچوں اور متعلقہ خاندان کو دیرپا نقصانات سے بچایا جا سکے۔
XS
SM
MD
LG