پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع علاقے کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب منقسم خاندانوں کا کہنا ہے کہ عید کا تہوار اُن کے لیے خوشیوں سے زیادہ افسردگی کا پیغام لے کر آتا ہے کیونکہ اپنوں سے بچھڑنے کا دکھ اس موقع پر تازہ ہو جاتا ہے۔
تقسیم ہند کے بعد کشمیر کے ہزاروں خاندانوں کے لاکھوں افراد ایک دوسرے سے جدا ہوئے1947 ء، 1965ء اور 1990ء میں ہزاروں کشمیری خاندان بھارتی کشمیر سے نقل مکانی کر کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر آئے تھے۔
ان میں سے اب بھی ہزاروں پاکستانی کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد اور دیگر علاقوں میں قائم کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ خوشی کا کوئی بھی موقع ہو انھیں اپنے بچھڑے پیاروں کی یاد بہت ستاتی ہے اور ان سے ملنے کی خواہش قابو سے باہر ہو جاتی ہے۔
بھارتی کشمیر کے سرحدی قصبے اوڑی سے منتقل ہوکر مظفرآباد کے نواح میں واقع مہاجر کیمپ مانک پیان میں رہائش پذیر 56 سالہ اسد اللہ بٹ بھی عید جیسے تہوار پر اپنے بچھڑے بہن بھائیوں کو یاد کر کے افسردہ ہو جاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرت ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ ایک بار اپنے پیاروں کو دیکھ لیں۔
" میں تو سوچتا ہوں کہ بس ایک دفعہ اپنی بہنوں کو دیکھ لوں بھائیوں کو مل لوں پھر چاہے میں مر بھی جاؤں تو کوئی غم نہیں، ان سے دور رہ کر بہت دل دکھتا ہے۔"
اس کیمپ میں مقیم دیگر لوگوں کا حال بھی اسدللہ سے کچھ مختلف نہیں۔ سات برس قبل کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان کشمیری خاندانوں کے ملاپ کے لیے بس سروس شروع کی گئی تھی۔
لیکن اس پر سفر کے لیے دونوں اطراف کی خفیہ ایجنسیوں کی تحقیق کے بعد اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے جو کہ اپنی جگہ ایک مشکل ترین مرحلہ ہے۔ اسی بنا پر اکثر خاندان خوشی غمی کے موقع پر ایک دوسرے سے ملنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔