رسائی کے لنکس

روس میں قوم پرست تحریک، تارکینِ وطن کے مسائل


’ہم روس کے قوم پرست مفاد میں، روسی قومی جمہوری حکومت کی خاطر یہ بات کہہ رہے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ وسطی ایشیا اور قفقاز جمہوری ریاستوں سے آنے والوں کے لیے ویزا متعارف کرایا جائے‘

یہ تعطیل قومی وحدت کا دِن منانے کےحوالے سے تھی۔ لیکن، مقبول نعرہ یہ تھا کہ، ’روس، روسیوں کا؛ ماسکو، ماسکو والوں کا‘۔

روس کے مختلف مذاہب اور لوگوں کے مابین اتحاد کے مطالبوں کے برعکس، مظاہرین یہ نعرہ لگا رہے تھے: ’بہت جلد، ماسکو ایک سفید فام شہر بن جائے گا‘۔

امریکہ کے بعد، روس میں تارکین وطن کی دنیا کی دوسری سب سے بڑی تعداد، یعنی ایک کروڑ 20 لاکھ کارکن آباد ہیں۔

روس کے اِن تمام کارکنان میں سے 10 فی صد کا تعلق وسطی ایشیا سے ہے، اور روس کے تاریخی سلوواک عیسیائیوں کی آبادی اور نئے آنے والے زیادہ تر مسلمانوں کی آبادی کے درمیان کشیدگی کے آثار نمایاں ہیں۔

پیر، نومبر چار کو، نکلنے والے سالانہ ’روسی مارچ‘ میں اِنہی جذبات کے مظہر نعرے اور کتبے نظر آئے۔

ایک بینر پر یہ کلمات درج تھے: ’آج ایک مسجد، کل جہاد‘۔

دوسرے میں تحریر تھا: ’نوجوان رواداری کے مخالف‘۔

شہر کے حکام نے ’روسی مارچ‘ کو شہر کے وسطی علاقے سے دور، ملازمت پیشہ آبادی تک محدود رکھا۔ اس سے ایک رات قبل، اندرون شہر علاقے میں زبرستی داخل ہونے والوں نے تالے بند گودام میں داخل ہو کر وہاں موجود 500 احتجاجی کلمات کو نقصان پہنچایا۔ اہل کاروں نے اس امید کا اظہار کیا کہ بارش اور پولیس کی شدید نفری کی موجودگی لوگوں مارچ میں شرکت سے دور رکھے گے۔

ہوا اس کے برعکس۔ میٹرو اسٹیشنوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ برآمد ہوئے، جن میں زیادہ تعداد وسط ایشیا اور روس کے قفقان علاقے سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کی تھی۔

’غیر ملکیوں‘ کو ملک سے باہر نکالو

ولادیمیر تور ایک قوم پرست راہنما ہیں۔ اُنھوں نے 400برس قبل کی تاریخ کا حوالہ دیا جب روس کی طرف سے پولینڈ کے فاتحوں کو ملک سےنکالا گیا تھا۔

اُن کے بقول، چار صدیاں قبل، ہمارے بڑوں نے کریملن سے غیر ملکی قابضین کو نکال باہر کیا تھا۔ خدا نے چاہا، تو ہم اس صدی میں ایسا ہی کر گزریں گے۔ ہم روس کے قوم پرست مفاد میں، روسی قومی جمہوری حکومت کی خاطر یہ بات کہہ رہے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ وسطی ایشیا اور قفقاز جمہوری ریاستوں سے آنے والوں کے لیے ویزا متعارف کرایا جائے۔‘

کئی لوگوں نے الزام لگایا کہ مفادات کی اس جنگ میں ماسکو کی شکل بگڑ چکی ہے۔

الیا وہاں کھڑا تھا جہاں نوجوان مردوں پر مشتمل ایک گروپ، جو سیاہ رنگ کے چمڑے کے جیکٹس میں ملبوس تھا، نعرے بلند کر رہا تھا۔


الیا نے کہا: ’ہم غیر قانونی ترک وطن کے خلاف ہیں‘۔

اُن کے بقول، ضرورت اس بات کی ہے کہ تبدیلی لائی جائے اور معاشی پابندیاں لاگو کی جائیں، تاکہ کاروباری حلقوں کے لیے یہ بات منافعہ بخش نہ رہے کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کو تنخواہیں دے سکیں، جن کی تعداد قانونی سکونت رکھنے والوں کے مقابلے میں دو سے تین گنا کم ہے۔

تاریخی طور پر، جنوب کی مسلمان آبادی کے ساتھ والی روسی سرحد پر قزاق پہرہ دیا کرتے تھے۔ سرگئی ایک قزاق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پناہ گزیں لوگ کم تنخواہوں پر کام کرتے ہیں۔

حکومتی اہل کار کہتے ہیں کہ روس میں بے روزگاری کی شرح 5.3 فی صد ہے۔

ماسکو میں مسلمانوں کی آبادی میں 20 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث کچھ مکیں بے بسی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے، عہدے دار کہتے ہیں کہ اس سال اُنھوں نے ملک بدری کے احکامات میں چار گنا اضافہ کیا ہے، اور غیر ملکیوں کے لیے ’فنگر پرنٹس‘ لینے کے کام میں آٹھ گنا اضافہ کیا ہے۔

’خاردار باڑ‘ کا مطالبہ

ولادیمیر زہرنووسکی، کریملن سرکار کے پسندیدہ قوم پرست سیاست داں ہیں۔

وہ دو ہفتے قبل، اِس حد تک گئے، کہ اُنھوں نے روس کے قفقاز کے خاندانوں کو پرے رکھنے کے لیے، چینی طرز کی آبادی پر کنٹرول کی پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔


لیودمیلا الیگزیوا، حقوقِ انسانی کی ایک معروف راہنما ہیں۔

اِس بات کے جواب میں، اُنھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ خود زہرنووسکی کے گِرد خاردار باڑ لگائی جائے
۔

اُنھوں نے کہا کہ کریملن ایک خطرناک حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہو رہا ہے۔

لگتا یوں ہے کہ روس کی نئی پود، جو سوویت دور کے بعد کی پیداوار ہے، اُس میں قوم پرستی پروان چڑھ رہی ہے۔
XS
SM
MD
LG