رسائی کے لنکس

شدت پسندی کا راستہ ’تاریکی کے سوا کچھ نہیں‘: سلیم رحمنٰ


سلیم رحمٰٰن ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں جنہوں نے برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ اسلام کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے مذہب کا مطالعہ کرے

سلیم رحمٰن ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں جنہوں نے برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ اسلام کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے وہ مذہب کا مطالعہ کرے۔

برطانوی فوج میں ملازمت کرنے والے سلیم رحمٰن کے والدین پاکستان کے شمال مغربی علاقے سے ترک وطن کرکے برطانیہ آئے تھے۔ سلیم خود برطانیہ میں پیدا ہوئے اور مانچیسٹر کی گلیوں میں کھیل کود کر جوان ہوئے۔

برطانوی مسلمان نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی، مغربی حکومتوں کے لیے پریشان کُن رہی ہے۔ لیکن، مسلمان نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد برطانوی فوج میں ملازمتیں بھی کر رہی ہے اور تجزیہ کاروں کا کہنا یہ ہے کہ یہ رجحان اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان برطانوی معاشرے میں آہستہ آہستہ ہی سہی مگر بتدریج ہم آہنگ ہو رہے ہیں۔

سلیم نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انیس بیس سال کی عمر سے نماز کی ادائیگی کے لیے وہ مسجد جایا کرتے تھے۔ لیکن، جب وہ باہر نکلتے تو مسجد کے باہر ٹولیوں کی شکل میں جمع نوجوان اُنہیں اور اُن کے دوستوں کو شدت پسند اسلام کی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

سلیم نے بتایا کہ، ’کم عمری اور اسلام کی اصل تعلیمات سے آگہی کے فقدان کے سبب وہ بھی آہستہ آہستہ شدت پسندوں کی باتوں کو پسند کرنے لگے‘۔

اُن کا کہنا تھا کہ وہ نوجوان مغرب کو برا بھلا کہتے اور یہ بھی بتاتے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ مظالم روا رکھے جا رہے ہیں اور مجھے اور میرے دوستوں کو بھی یہ باتیں اچھی لگتیں۔

اُن کے بقول، ’لیکن، جب میں اپنے کیرئیر اور مستقبل کے بارے میں سوچتا تو مجھ سے شدت پسندی کے راستے میں تاریکی کی سوا کچھ نظر نہ آتا تھا، جس کے باعث میں نے یہ فیصلہ کیا کہ برطانوی فوج میں ملازمت کروں گا اور آج جب کہ میں بہت اچھی زندگی گزار رہا ہوں، اپنے اس فیصلے پر مجھے خوشی اور اطمینان ہے۔


اس انٹرویو کی مزید تفصیل کے لیے نیچے دئے گئے آڈیو لنک پر کلک کیجیئے:

سلیم رحمنٰ انٹرویو
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:00 0:00
XS
SM
MD
LG