رسائی کے لنکس

پاکستان، ’پُرامن اور مستحکم افغانستان‘ کا حامی ہے: سرتاج عزیز


’ڈیوا سروس‘ سے انٹرویو میں اُنھوں نے کہا کہ اپنے دورہِ امریکہ میں وزیر اعظم نواز شریف نے صدر اوباما اور اعلیٰ امریکی عہدے داروں کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ’ہم مستحکم اور پُرامن افغانستان چاہتے ہیں۔‘

پاکستان کےقومی سلامتی اور امورِ خارجہ کے مشیر، سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ افغانستان کا امن اور استحکام پاکستان کے لیے اتنا ہی ناگزیر ہے، جتنا خود افغانستان کے لیے ہے۔ اُن کے بقول، ’ہم نے اِس مؤقف کا واضح ثبوت پیش کیا ہے‘۔

’وائس آف امریکہ‘ کی ’ڈیوا سروس‘ سے ایک انٹرویو میں، اُنھوں نے کہا کہ اپنے دورہٴ امریکہ میں وزیر اعظم نواز شریف نے صدر اوباما اور اعلیٰ امریکی عہدے داروں کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ’ہم مستحکم اور پُرامن افغانستان چاہتے ہیں‘۔

ایک سوال کے جواب میں، سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان، افغانستان کے معاملے میں عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جہاں پاکستان کی کوئی پسندیدنا پسندید نہیں ہے۔ اُن کے بقول، ’اِس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان، افغان قیادت میں امن عمل کی مکمل حمایت کرتا ہے‘۔

لیکن، اُنھوں نے کہا کہ یہ پالیسی تبھی کامیاب ہوگی، جب تمام ہمسائے اور علاقائی ممالک اِسی پالیسی پر عمل پیرا ہوں۔

اُنھوں نے کہا کہ 2014ء میں امریکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان کی صورت حال غیر یقینی لگتی ہے۔’اگرکسی نے طاقت کے خلاٴ کو پُر کرنے کی کوشش کی، تو پھر ہم سب افغانستان میں ’پراکسی ‘ لڑائی میں ملوث نظر آئیں گے، جو بات افغان مفاد میں نہیں ہوگی‘۔

سرتاج عزیر نے کہا کہ ، ’ سارے ہمسایوں اور علاقے کےتمام ممالک کو افغانستان کو علیحدہ رکھنا ہوگا، تاکہ افغانستان اپنے مسائل خود حل کرے‘۔

اُن کے بقول، جب اُنھوں (افغانستان ) نے مفاہمت حاصل کرلی پھر ہم سب تعمیرِ نو اور ترقی، تجارت اور دیگر شعبوں میں شریک ہوسکیں گے، جِن کی افغانستان کو ضرورت ہوگی۔

اُنھوں نے کہا کہ 2014ء کے بعد افغانستان کی صورتِ حال کیا ہوگی، اِس کا دارومدار اُس وقت کے زمینی حقائق پر ہوگا۔

سہ فریقی سمجھوتے کے بارے میں ایک سوال پر، سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان کو بتایا گیا ہے کہ اِس ضمن میں ہونے والی بات چیت میں اچھی پیش رفت ہوئی ہے، اور یہ کہ تقریباً سارے معاملات طے پا گئے ہیں، ماسوائے چند غیر اہم اشوز کے۔ ’لیکن، امریکی افواج کو استثنیٰ دینے کے معاملے پر جرگوں کی طرف سے منظوری درکار ہوگی، جسے صدر کرزئی نے اگلے ماہ منعقد کرنے کے لیے کہا ہے۔ اگر ایسا ہوا، تو اِس سال کے آخر تک ایسے معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔‘

لیکن، اُنھوں نے کہا کہ، ’اِس کا فیصلہ افغانستان اور امریکہ کے مابین کا معاملہ ہے کہ کس قسم کی فوج اور بندوبست کی ضرورت باقی ہوگی، اور یہ کہ جو بات بھی طے ہوتی ہے، پاکستان اُس کا خیرمقدم کرے گا‘۔

جب اُن سے 2014ء کے پس ِمنظر میں پاکستان کی تشویش کے بارے میں پوچھا گیا، تو پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ ، ’تشویش کی بات تب ہوگی جب، خدا نہ کرے، مفاہمت نہ ہو پائے، یا لڑائی ہوتی ہے، کیونکہ، پھر ہمیں دوہرا مسئلہ درپیش ہوگا، یعنی بہت سے رضاکار یہاں سے وہاں جانے کی کوشش کر سکتے ہیں، جب کہ دوسری طرف سے افغانستان سے لوگ پاکستان کے اندر داخل ہو سکتے ہیں۔اگر ایسا ہوتا ہے، تو خطہ عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا، جو بدقسمتی ہوگی۔‘
XS
SM
MD
LG