رسائی کے لنکس

جنوبی افریقہ: دیہی آبادی کے لیے مجوزہ قانون پر تنقید


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

مجوزہ قانون کے حامی کہتے ہیں کہ اس میں روایتی رسم و رواج اور قیادت کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے جب کہ ناقدین کہتے ہیں کہ یہ نسلی امتیاز کے دور کے بدنامِ زمانہ قوانین کی یاد دلاتا ہے۔

جنوبی افریقہ کی حکومت نے اپنے ایک کروڑ ستر لاکھ سیاہ فام شہریوں کے لیے جو دیہی علاقوں میں رہتے ہیں، ایک علیحدہ قانونی نظام تجویز کیا ہے۔ اس مجوزہ قانون کے حامی کہتے ہیں کہ اس میں روایتی رسم و رواج اور قیادت کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے جب کہ ناقدین کہتے ہیں کہ یہ نسلی امتیاز کے دور کے بدنامِ زمانہ قوانین کی یاد دلاتا ہے۔

جنوبی افریقہ کی حکومت ایک متنازع بِل پر غور کر رہی ہے جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے نسلی امتیاز کے دور کے قابلِ نفرت قوانین کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ قانون غیر آئینی اور عورتوں کے خلاف ہے۔

‘‘اس قانون کے تحت جس کا نام (ٹرڈیشنل کورٹس بل) ہے، دیہی علاقوں میں رہنے والے ایک کروڑ ستر لاکھ افراد کے لیے ایک الگ عدالتی نظام قائم کیا جائے گا۔ اس قانون سے متاثر ہونے والے سب لوگ سیاہ فام ہوں گے اور بیشتر غریب ہوں گے۔’’

کئی مہینوں کی سماعتوں کے بعد جن میں مقامی لوگوں نے اس کی سخت مخالفت کی یہ بل اب صوبائی حکومتوں کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔

اس بِل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے لڑائی جھگڑے کم ہو جائیں گے اور مقامی آبادیوں میں ہم آہنگی اور امن و امان قائم ہو جائے گا۔ ان روایتی عدالتوں کی وجہ سے ملک کے عدالتی نظام پر سے دباؤ کم ہو جائے گا اور جھگڑوں کا تصفیہ تیزی سے ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ہی مقامی رسم و رواج کو بھی مدِ نظر رکھا جائے گا۔

یہ قانون 1927ء کے (بلیک ایڈمنسٹریشن ایکٹ 38) کی نقل ہے۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہوتا ہے اس پرانے قانون میں کالوں کو دوسرے درجے کے شہری سمجھا جاتا تھا اور اس خیال کو قانونی شکل دینے کے لیے انہیں روایتی لیڈروں کے تحت کر دیا گیا تھا۔

پرانے قانون کی طرح، اس نئے قانون میں ایسا عدالتی نظام قائم کیا جائے گا جس پر روایتی لیڈروں کا غلبہ ہو گا اور فیصلے مقامی رسم و رواج کے مطابق ہوا کریں گے۔

روایتی عدالتوں میں ملزموں کو وکیل لانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ عدالتی لیڈر ملزموں کو جبری محنت کی سزا د ے سکتے ہیں۔ کسی کو ان عدالتوں کے دائرہ کار سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔

یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن کے لاء، ریس اینڈ جینڈر ریسرچ یونٹ کی سینڈیسوویکس کہتی ہیں کہ یہ مجوزہ قانون ناقص ہے۔

‘‘یہ بلِ غیر آئینی ہے کیوں کہ اس میں عورتوں کے حقوق کا پوری طرح تحفظ نہیں کیا گیا ہے، اور اس میں لوگوں کو یہ اجازت نہیں دی گئی ہے کہ وہ خود یہ طے کر سکیں کہ کیا وہ اپنے جھگڑے روایتی رسم و رواج اور ضابطوں کے تحت طے کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ آئین کے تحت لوگوں کو یہ حق حاصل ہے۔ اس میں لوگوں کو اپنے وکیل کی ذریعے نمائندگی کی اجازت بھی نہیں ہے، اگر وہ ایسا کرنا چاہیں اور اس میں عام طور سے روایتی قانون کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے کیوں کہ جھگڑے طے کرنے کے لیے روایتی قانون ایسا طریقہ ہے جس میں سب لوگ شرکت کرتے ہیں۔’’

وہ کہتی ہیں کہ روایتی لیڈروں کی بہت بڑی اکثریت مردوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ بِل کی سماعت کے دوران بہت سی عورتوں نے شکایت کی ہے کہ ان سے کہا گیا ہے کہ وہ روایتی عدالتوں میں اپنے مقدمے نہیں جیت سکیں کیوں کہ اس طرح عورتوں کی گستاخی کا رویہ اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

‘‘چونکہ یہ عدالتیں بیشتر بوڑھے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہیں اس لیے عورتوں اور بچوں کی پریشانیوں کے بارے میں ان کا رویہ ہمدردانہ نہیں ہوتا۔ بلکہ خاندانی جھگڑوں میں وہ اکثر عورتوں کی مقابلے میں مردوں کی طرفداری کرتی ہیں۔ گھریلو تنازعات اور زمین اور ورثے کے معاملات میں، اور شادی بیاہ کے جھگڑوں میں، یہ رویہ تشویش کا باعث ہوتا ہے۔’’

ویکس کہتی ہیں کہ نیشنل کونسل آف پروونیسس کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیئے کہ مشاورتوں کے دو راؤنڈٰز کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ لوگوں کے احساسات اس بِل کے بارے میں کیا ہیں۔ اس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں جو مسائل پیدا ہوں گے، ان کی روشنی میں انہیں اسے مکمل طور سے مسترد کر دینا چاہیئے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک نئے قانون کا مسودہ تیار کیا جانا چاہیئے جس میں دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی ضروریات کو مدِ نظر رکھا جانا چاہیئے۔

یہ بل مہینوں سے التوا میں پڑا ہوا ہے۔ لیکن جنوبی افریقہ میں حالیہ واقعات کی وجہ سے اس میں نئے سرے سے جان پڑ سکتی ہے۔ جنوبی افریقہ میں مہینوں کی تشدد آمیز ہڑتالوں کے بعد، صدر جیکب زوما کی سیاسی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔

عنقریب حکمراں افریقن نیشنل کانگریس کا انتہائی اہم کنونشن ہونے والا ہے جس میں وہ قومی انتخابات کے لیے اپنے لیڈر کا انتخاب کریں گے۔

1994ء سے اب تک (اے این سی) ہر بڑے انتخاب میں بھاری اکثریت سے جیتتی رہی ہے۔ صدارت اسی پارٹی کے اُمید وار کو ملے گی۔

لیکن پھر بھی یہ ضروری ہے کہ لوگ ووٹ ڈالنے آئیں، خاص طور سے دیہی علاقوں میں۔ اس طرح مقامی سرداروں کو بادشاہ گروں کا رول حاصل ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ روایتی عدالتوں کے قانون کو منظور کرانے کے لیے پارٹی جو کوششیں کر رہی ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔
XS
SM
MD
LG