رسائی کے لنکس

ٹائٹن کے پھٹنے کی تصدیق؛ 'پتا تھا کہ کچھ برا ہو چکا ہے'


بحر اقیانوس میں آب دوز پھٹنے اور دو پاکستانی نژاد شہریوں سمیت پانچ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کے بعد اب یہ معاملہ موضوعِ بحث ہے کہ آخر یہ حادثہ کیوں اور کیسے پیش آیا؟

جمعرات کو امریکی کوسٹ گارڈز نے تصدیق کی تھی کہ اتوار کو بحر اوقیانوس میں 'ٹائٹینک' کی باقیات دیکھنے کے لیے جانے والی آب دوز 'ٹائٹینک' کے ملبے کے قریب پھٹ گئی تھی جس سے آب دوز میں سوار تمام پانچوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ہلاک ہونے والوں میں پاکستان کے صنعت کار شہزادہ داؤد اور اُن کا بیٹا سلیمان داؤد بھی شامل ہیں۔ دبئی میں کاروبار کرنے والے ایک برطانوی بزنس مین ہیمش ہارڈنگ، ٹائٹینک پر تحقیق کرنے والے ایک فرانسیسی ماہر پال ہنری نارگیولٹ اور آب دوز کے پائلٹ ا سٹاکن رش شامل ہیں۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے ریئر ایڈمرل جان ماگر نے واقعے کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ "میں جانتا ہوں کہ اس واقعے سے متعلق بہت سے سوالات ہوں گے کہ کہ کب، کٰیا اور کیسے ہوا؟

اُن کا کہنا تھا کہ ہم ان سوالات کے جوابات کے لیے مزید معلومات جمع کر رہے ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور یہ حادثہ سمندر کی اتھاہ گہرائیوں اور دُور دراز حصے میں پیش آیا ہے۔

'اتوار کو ہی سمندر کی گہرائی سے دھماکے کی آواز سنی گئی تھی'

واقعے کی ٹائم لائن کے حوالے سے اس وقت سوالات اُٹھنے لگے تھے جب جمعرات کو امریکی نیوی کے ایک اہلکار نے بتایا تھا کہ اتوار کو آب دوز کے لاپتا ہونے کے بعد کسی دھماکے سے ہم آہنگ آواز سنی گئی تھی۔

اُن کا کہنا تھا کہ امریکی بحریہ نے ایک جدید نظام کے ذریعے اس کا صوتی جائزہ لیا جس کے بعد پتا چلا کہ یہ آواز کسی چیز کے پھٹنے یا دھماکے سے مطابقت رکھتی ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی بحریہ کے اہلکار نے بتایا کہ یہ آواز اسی سمندری حصے سے سنی گئی جہاں سے تفریحی آب دوز روانہ ہوئی تھی اور لگ بھگ پونے دو گھنٹے بعد اس کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔

اوشیئن گیٹ کمپنی جو 2021 سے ہر سال اس تفریحی مشن کا اہتمام کرتی ہے, نے جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا ہےکہ "ہلاک ہونے والے پانچوں افراد مہم جوئی کا ایک ہی الگ جذبہ رکھتے تھے اور یہ سب سمندری ماحول کو کھوجنے اور اس کے تحفظ کے خواہاں تھے۔"

تعزیت اور اظہارِ تشکر

لاپتا آب دوز کی کثیر ملکی تلاش پر وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں بھی اظہارِ تشکر کیا گیا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے اپنے بیان میں امریکی کوسٹ گارڈز ، کینیڈین اور فرانسیسی شراکت داروں کی کوششوں پر خراجِ تحسین پیش کیا۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھی ایک بیان میں لاپتا آب دوز کی تلاش کے لیے کی جانے والی مشترکہ کوششوں کو سراہا ہے۔ ادھر داؤد خاندان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ناقابلِ تلافی نقصان ہے، لیکن اس مشکل وقت میں خاندان کا حوصلہ بڑھانے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

'ٹائٹن' نے اپنا سفر اتوار کو مقامی وقت کے مطابق کینیڈا کے صوبے نیو فاؤنڈ لینڈ کے شہر سینٹ جانز کے جنوب میں 435 میل دُور بحر اقیانوس میں شروع کیا تھا۔ آب دوز سے رابطہ منقطع ہونے پر بحری جہازوں، ہوائی جہازوں اور دیگر آلات کی مدد سے تلاش کا عمل شروع کیا گیا۔

حکام اُمید کر رہے تھے کہ منگل اور بدھ کو سمندر کے اندر سے آنے والی آوازوں سے تلاش کا علاقہ محدود کرنے میں مدد مل سکتی تھی جو اس سے قبل ہزاروں میل پر پھیلا ہوا تھا۔

لیکن جمعرات کو لاپتا آب دوز کے مسافروں کے زندہ بچ جانے کی اُمید اس وقت ختم ہو گئی تھی جب آکسیجن سپلائی کے 96 گھنٹے مکمل ہوئے۔ بعدازاں کوسٹ گارڈز نے اعلان کیا کہ 'ٹائٹینک' سے کچھ فاصلے پر ملبے کے آثار ملے ہیں جو آب دوز کے پریشر چیمبر کے تباہ ہونے سے مطابقت رکھتے ہیں۔

کوسٹ گارڈز نے یہ بھی اعلان کیا کہ منگل اور بدھ کو سنی گئی آوازیں ممکنہ طور پر کسی اور چیز کی تھیں۔

جان ماگر نے کہا کہ سمندر کی تہہ سے آنے والے شور اور آب دوز کے ملبے کے درمیان کوئی تعلق دکھائی نہیں۔

امریکی نیوی کے اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اتوار کو سمندر کی تہہ سے زوردار آواز کی اطلاع کوسٹ گارڈز کو دی گئی تھی جنہوں نے اسے قطعی نہ سمجھتے ہوئے تلاش کا عمل جاری رکھا۔

'مجھے پتا تھا کہ کچھ برا ہو چکا ہے'

فلم 'ٹائٹینک' کے ڈائریکٹر جیمز کیمرون نے نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کو بتایا جب اُنہیں آب دوز کے لاپتا ہونے کی اطلاع ملی تو اُنہیں اندازہ ہو چکا تھا کہ اس کے ساتھ کچھ برا ہو چکا ہے۔

جیمز کیمرون کے مطابق "میرے لیے اس میں کوئی شک نہیں تھا، یہ کوئی تلاش نہیں تھی، 96 گھنٹے آکسیجن کے دلاسے، سمندر سے آوازیں آنے کی اطلاعات یہ سب لاپتا افراد کو ایک جھوٹی تسلی دینے کے مترادف تھا۔"

خیال رہے کہ 'اوشیئن گیٹ' کے اس تفریحی مشن میں 2021 سے اب تک 46 افراد "ٹائٹینک' کی باقیات دیکھنے کی اس مہم کا حصہ رہ چکے ہیں۔لیکن کمپنی کے سابق اہل کار اور ایک مسافر کی جانب سے تفریحی آب دوز کی سیکیورٹی کے حوالے سے سوالات اُٹھائے جاتے رہے ہیں۔

جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائر بزنس مین اور مہم جو آرتھر لوئبل نے دو برس قبل اس مہم میں حصہ لیا تھا اور اسے ایک خود کش مشن قرار دیا تھا۔

آرتھر کہتے ہیں کہ "آپ تصور کریں کہ آپ ایک دھات کی ٹیوب جو اس آب دوز کے فرش کے لیے بنائی گئی ہے اس پر بیٹھے ہیں، آپ کھڑے نہیں ہو سکتے، آپ گھٹنوں کے بل بیٹھ نہیں سکتے، ہر کوئی ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی محدود سی جگہ ہوتی ہے۔"

اُن کا کہنا تھا کہ ڈھائی گھنٹے کی سمندر میں اُترائی اور پھر واپس سطح پر آنے کے دوران اندر کی تمام لائٹیں توانائی بچانے کے لیے بند کر دی گئی تھیں، صرف فرش پر ایک لائٹ تھی۔

آرتھر کے بقول بیٹریوں اور وزن کا توازن برقرار رکھنے کے لیے سمندر میں اُترنے کا مرحلہ تاخیر کا شکار ہوتا رہا اور مجموعی طور پر اس سارے عمل میں ساڑھے دس گھنٹے لگے۔

گہرے سمندر میں ماحولیات کے ماہر نکولائی روٹرمین کہتے ہیں کہ اس واقعے سے پتا چلتا ہے کہ گہرے سمندر میں سیاحت اور نامعلوم خطرات کے ادراک کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بہت ہی پائیدار ٹیکنالوجی بھی ناکام ہو سکتی ہے۔ لہذٰا گہرے سمندر کی سیاحت کے دوران حادثات کے امکانات موجود رہیں گے۔

اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG