رسائی کے لنکس

تیونس کے عوام کی نئی پریشانی


تیونس میں مذہبی انتہا پسندی کی کوئی روایت نہیں۔ یہاں کے لوگ اعتدال پسند، نرم خو اور روا دار ہیں اور انتہا پسندی سے انہیں کوئی واسطہ نہیں۔

تیونس میں حزبِ اختلاف کے گروپ پارٹی لیڈر شكري بلعيد کے قتل کا الزام انتہا پسند مسلمانوں پر جنہیں سلفی کہتے ہیں، لگا رہے ہیں ۔ وہ حکمران النهضة پارٹی پر مذہبی تشدد کو ہوا دینے کا الزام لگاتےہیں۔ حکومت نے اس الزام کی تردید کی ہے ۔ تیونس میں اعتدال پسند اور سیکولر خیالات کے لوگوں میں ملک میں انتہا پسندی کے فروغ کے بارے میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔

تیونس روایتی طور پر سیکولر ملک رہا ہے۔ آج کل معاشرے میں مذہبی انتہا پسندی کے اثرات پر بحث جاری ہے، اور تیونس کی مسجدوں کو اس بحث میں مرکزی مقام حاصل ہو گیا ہے۔

حزبِ اختلاف کے گروپ 6 فروری کو پارٹی لیڈر شكري بلعيد کے قتل کا الزام اسلامی انتہا پسندوں پر لگا رہے ہیں ۔

لیگز فار دی پروٹیکشن آف دی رویلوشن جیسی تنظیموں پر الزام ہے کہ وہ مذہبی تشدد کے ایجنڈے پر عمل کر رہی ہیں ۔ انھوں نے آرٹ گیلریوں پر حملے کیے ہیں اور جو عورتیں اسلامی لباس پہننے سے انکار کرتی ہیں، انہیں پریشان کیا جاتا ہے ۔

بہت سے ناقدین کا دعویٰ ہے کہ ان لوگوں کو حکمراں النهضة پارٹی کی حمایت حاصل ہے ۔
لیکن مذہبی امور کے وزیر، العروسي الميزوري اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں’’حکومت تشدد کی مذمت کرتی ہے اور تشدد کا پرچار کرنے والوں کے خلاف ہے ۔ تیونس کی مسجدوں کی بہت بڑی اکثریت اتحاد اور رواداری پر زور دیتی ہے، اور ہر قسم کے امتیازی سلوک اور تشدد کو مسترد کرتی ہے۔‘‘

تیونس لیگ فار دی ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کے علی زیدنی کہتے ہیں کہ انتہا پسندی کی وجہ بیرونی اثرات ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ تیونس میں مذہبی انتہا پسندی کی کوئی روایت نہیں۔ تیونس کے لوگ اعتدال پسند، نرم خو اور روا دار ہیں اور انتہا پسندی سے انہیں کوئی واسطہ نہیں۔

ہفتے کے روز تیونس میں النهضة کی حمایت میں جو اجتماع ہوا اس میں قدامت پسند سلفیوں کے سیاہ اور سفید پرچم بھی نظر آ رہے تھے۔ لیکن اس اجتماع کے منتظم بشیر خلفی کہتے ہیں کہ رواداری النهضة پارٹی کا خاصہ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ تیونس کے لوگ اپنے کل کی تعمیر مل جل کر کرنا چاہتے ہیں، وہ کسی کو علیحدہ کرنا نہیں چاہتے، وہ چاہے انتہائی بائیں بازو کے لوگ ہوں یا انتہائی دائیں بازو کے ۔ لوگ ایسا تیونس تعمیر کرنا چاہتے ہیں جو سب کے لیے ہو۔

لیکن حکومت پر نکتہ چینی کرنے والے کہتے ہیں کہ انہیں اپنی جانوں کی فکر ہے ۔ ٹیلیویژن چینل کے اسٹوڈیوز میں گذشتہ سال لوٹ مار ہوئی اور مشینیں اور آلات چرا لیے گئے ۔ کمپنی کے صدر طاہر بن حسنی ، جو النهضة کے جانے پہچانے ناقد ہیں، کہتےہیں کہ انہیں ڈر ہے کہ ان کا بھی وہی حشر ہو گا جو بالعید کا ہوا ہے ۔
XS
SM
MD
LG