رسائی کے لنکس

جنوبی سوڈان میں بچوں کا ریپ اور قتل کیا جا رہا ہے: یونیسف


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ویچ نے ان حملوں کو انسانی قوانین کے منافی قرار دیا اور کہا کہ جنوبی سوڈان کی حکومت اور حزبِ اختلاف کو بچوں کی حفاظت کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا چاہیئے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اطفال نے کہا ہے کہ جنوبی سوڈان کی یونیٹی ریاست میں مسلح گروہوں نے گزشتہ دو ہفتوں میں درجنوں بچوں کو اغوا، قتل اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ یہ واضح نہیں کہ حملہ آور حکومت کے لیے کام کر رہے ہیں یا باغی فورسز کے لیے۔

جنوبی سوڈان کی یونیٹی اور بالائی نیل ریاستوں میں حالیہ ہفتوں میں تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ شہریوں کے خلاف باقاعدگی اور بڑھتی ہوئی سفاکی سے حملے کیے جا رہے ہیں۔

جنوبی سوڈان میں یونیسف کے نمائندے جوناتھن ویچ نے کہا ہے کہ حالات اس لیے خراب ہو گئے ہیں کیونکہ باغی فورسز اور حکومت دونوں ہی برسات کا موسم شروع ہونے سے پہلے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔

وحشیانہ حملے

دارالحکومت جُبا سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں صرف ہارنے والے ہی ہیں، خصوصاً یونیٹی ریاست کے بچے جن پر وحشیانہ حملے کیے جا رہے ہیں اور جن کا استحصال کیا جا رہا ہے۔

ویچ نے کہا کہ ’’بچ جانے والوں نے یونیسف کو بتایا ہے کہ مسلح گروہوں نے پورے کے پورے گاؤں جلا دیے جن کے باہر بڑی تعداد میں لڑکیوں اور عورتوں کو لے جا کر جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ ان میں سات سال کی چھوٹی عمر کی لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ 10 سال کی عمر کے لڑکوں سمیت بہت سے لڑکوں اور سات لڑکیوں کے قتل کی تصدیق ہو چکی ہے۔‘‘

عینی شاہدین نے یونیسف کو بتایا کہ ان کے خیال میں یہ حملے ’’سوڈان پیپلز لبریشن آرمی سے وابستہ‘‘ گروہوں نے کیے۔ مگر اقوام متحدہ کے ادارے نے یہ واضح نہیں کیا کہ ان گروہوں کو حکومت کی حمایت حاصل تھی یا باغی فورسز کی۔ سوڈان پیپلز لبریشن آرمی کے اراکین سوڈان کے تنازع میں دونوں جانب پائے جا سکتے ہیں۔

ویچ نے ان حملوں کو انسانی قوانین کے منافی قرار دیا اور کہا کہ جنوبی سوڈان کی حکومت اور حزبِ اختلاف کو بچوں کی حفاظت کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ 4,000 افراد نے بنیٹو میں اقوامِ متحدہ کے مشن میں پناہ لے رکھی ہے جبکہ دیگر افراد دلدلی علاقوں اور دوسری جگہوں میں چھپے ہیں۔

بچوں پر تشدد

ویچ نے کہا کہ بچوں کے خلاف مسلح گروہوں کا تشدد انتہائی بہیمانہ ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔

’’ہم نے بچ جانے والی خواتین میں سے کچھ کے انٹرویوز کیے۔ انہوں نے کہا ہے کہ سپاہی اس لیے بچوں کو مار رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں وہ بالآخر انتقام لینے آئیں گے، اس لیے انہیں ابھی مارنا بہتر ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ اس تنازع میں بچوں کا اس طرح استعمال اس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔‘‘

بیس ماہ قبل جب سے حکومت اور باغیوں کے درمیان تنازع شروع ہوا یونیسف کے مطابق 13,000 بچوں کو بھرتی کیا گیا۔ تمام فریقین بچوں کو مختلف کاموں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بہت سے بچوں کو سپاہیوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، دیگر کو باورچی، قاصد یا قلی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ بہت سی لڑکیوں کو جنسی غلاموں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یونیسف نے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG