رسائی کے لنکس

انتخابات کی تیاریاں: امریکہ کوبرما کےفوجی لیڈروں سےبات چیت کرنی چاہیئے: ایشیا سوسائٹی


برما
برما

واشنگٹن میں قائم ایک ریسرچ گروپ نے برما کے بارے میں امریکہ کی پالیسی پر ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں اوباما انتظامیہ پر زور دیا گیا ہے کہ اب جب کہ اس ملک میں جس پر فوج کی گرفت بہت مضبوط ہے ، دو دہائیوں کے بعد پہلے انتخابات کی تیاریاں ہو رہی ہیں، امریکہ کو فوجی لیڈروں کے ساتھ بات چیت کی کوششیں جاری رکھنی چاہئیے۔

اپنی رپورٹ میں، ایشیا سوسائٹی نے ایک مرحلے وار عمل کا خاکہ پیش کیا ہے جس کے ذریعے امریکی حکومت برما کے لوگوں، اس کی حکومت، اور انٹرنیشنل کمیونٹی کے ساتھ رابطہ قائم کر سکتی ہے تا کہ اس ملک میں ، جو کافی عرصے سے باقی دنیا سے کٹا ہوا ہے، سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کو فروغ دیا جا سکے ۔

رپورٹ میں تجویز کردہ بیشتر اقدامات کا انحصاراس بات پر ہے کہ آنے والے مہینوں میں ، جب برما صوبائی، علاقائی اور قومی انتخابات کی تیار ی کر رہا ہے، واقعات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ وہ زمانہ ہے جب برما میں دور رس تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔ امریکی حکومت کو چاہیئے کہ وہ اس زمانے میں جمہوریت کی حوصلہ افزائی کرے ، فوج پر زور دے کہ وہ ملک میں نظم و نسق کو بہتر بنائے، اور ملک میں انسانی حقوق اور سیاسی قیدیوں کی حاٖلت کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتی رہے ۔

سابق صدر جارج ڈبلو بش کے دور میں یو ایس ایڈ کی سربراہ ہینریتہ فور اِس رپورٹ کو تحریر کرنے والوں میں شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ حالات اگر بہت اچھے ہوں، تو بھی برما میں مستحکم جمہوریت کے لیے جِن سماجی، سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، انہیں لانے میں کئی عشرے لگیں گے۔

ہینریتہ کے الفاظ میں ، ‘اس عمل کے دوران ملک میں عدم استحکام اور اندرونی خلفشار کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اصلاحات کے لیئے بین الاقوامی برادری کی مدد کی ضرورت ہوگی تا کہ یہ عمل آگے بڑھتارہے۔’

برما نے 1948 ءمیں برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد کے چھہ عشروں میں، بیشتر وقت ملک پر فوج کی حکومت رہی ہے ۔ ملک میں آخری بار 1990ء میں انتخاب ہوئے تھے جو حزبِ اختلاف کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے جیتے تھے ۔ لیکن فوج نے اس مقابلے کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پارٹی کی لیڈر آنگ سان سو چی گذشتہ بیس میں سے چودہ سال، کسی نہ کسی شکل میں زیرِ حراست رہی ہیں۔

گذشتہ ہفتے، نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے اعلان کیا کہ وہ آنے والے انتخابات کا بائیکاٹ کرے گی۔ برما میں جو انتخابی قوانین بنائے گئے ہیں، ا ن کی روشنی میں پارٹی کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ انتخابات سے الگ ہو جائے۔ اب اس پارٹی کو کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔

رٹائرڈ آرمی جنرل ویزلی کلارک بھی ایشیا سوسائٹی کی اس رپورٹ کی تیار ی میں شامل ہیں۔ وہ 2004ء کے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امید وار تھے ، وہ کہتے ہیں کہ این ایل ڈی کے بائیکاٹ کے فیصلے سے ، امریکہ کا رابطہ قائم رکھنا اور زیادہ ضروری ہو گیا ہے ۔

اُن کے الفاظ ہیں:‘نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے اس فیصلے سے کہ وہ آنے والے انتخابات میں حصہ نہیں لے گی، رابطے کا کام مشکل ضرور ہو گیا ہے، لیکن امریکہ کو اپنی کوششیں اور تیز کر دینی چاہئیں تا کہ یہ بات یقینی ہوجائے کہ برما میں جو جمہوری آوازیں ہیں، ہمار ا ان سے رابطہ قائم ہے۔’

کلارک کہتے ہیں کہ رابطے کو بہتر بنانے کے لیئے ایک چیز جو امریکی حکومت کر سکتی ہے وہ یہ ہے کہ برما کے لیے ایک خصوصی نمائندے اور پالیسی کو آرڈینیٹر کا تقرر کرے ۔برما کی حکومت نے اب تک انتخابات کی تاریخ مقرر نہیں کی ہے اور یہ بات واضح نہیں ہے کہ این ایل ڈی کے کالعدم قرار دیے جانے کےبعد، حکومت مخالف نئی سیاسی پارٹیاں بنیں گی یا نہیں۔

برما میں امریکی سفارت خانے کی سابق چیف آف مشن پرسیلا کلاپ کہتی ہیں کہ اگرچہ فوج تو یہی چاہتی ہے کہ انتخابات کو عوام پر اپنے کنٹرول کو طول دینے کے لیئے استعمال کرے، لیکن ووٹنگ سے ایسا عمل شروع ہو جائے گا جس سے برما کے لوگ خود اپنے آپ پر حکومت کرنے اور اپنا مستقبل اپنے ہاتھوں میں لینے کے بارے مِیں سوچنے لگیں گے ۔

پرسیلا کلاپ کے الفاظ میں ‘پارلیمانو ں میں کچھ نہ کچھ بحث تو ضرور ہوتی ہے۔ یہ بات تو آئین میں بھی تسلیم کی گئی ہے۔ آج کل وہ کسی قسم کی بحث کی اجازت نہیں دیتے، لیکن جب پارلیمینٹری سسٹم شروع ہو گا تو انہیں تبدیلی لانی ہوگی۔’

گذشتہ ستمبر میں صدر براک اوباما نے برما کے بارے میں امریکہ کی نئی پالیسی کا اعلان کیا تھا جس میں برما کو الگ تھلگ کرنے اور اس پر پابندیاں لگانے کے بجائے عملی رابطوں اور بات چیت کا طریقہ اختیار کرنے پر زور دیا گیا تھا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اس نئی پالیسی کے نتیجے میں اب تک برما نے امریکہ کی طرف کوئی لچک نہیں دکھائی ہے ۔ ایشیا سوسائٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ برما کے مسائل حل کرنے اور اس کی حکومت پر اثر انداز ہونے میں، اس کی صلاحیت انتہائی محدود ہے ۔

جہاں تک تجارت اور سرمایہ کاری پر پابندیوں کا تعلق ہے، اس گروپ کا کہنا ہے کہ جب تک برما آنگ سان سوچی کو رہا نہ کرے اور سیاسی عمل میں انہیں پوری طرح شریک ہونے کی اجازت نہ دے، اس پر پابندیاں برقرار رہنی چاہئیں۔

XS
SM
MD
LG