رسائی کے لنکس

امریکہ کی طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت


امریکہ کی طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت
امریکہ کی طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت

امریکہ نے طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ کئی ماہ قبل شروع کیا جانے والا براہ راست بات چیت کا سلسلہ تیز کردیا ہے اور بقول امریکی عہدے داروں کے اُمید ہے کہ افغانستان کے مسئلے کے حتمی حل کی طرف یہ پیش رفت صدر براک اوباما کو جولائی میں ملک سے اپنی افواج کی مرحلہ وار واپسی کے اعلان کی بنیاد بنے گی۔

یہ انکشاف کرتے ہوئے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک افغان عہدے دار کے حوالے سے کہا ہے کہ ایک امریکی نمائندے نے قطر اور جرمنی میں ہونے والے کم از کم تین اجلاسوں میں شرکت کی ہے اور اس سلسلے کا تازہ ترین رابطہ نو روز قبل ہوا تھا۔ بات چیت میں طالبان کی نمائندگی کرنے والا شخص تحریک کے مفرور سربراہ ملا عمر کا ایک قریبی ساتھی بتایا گیا ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان مائیکل ہیمر نے افغان عہدے داروں کے ان دعوؤں پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’امریکہ نے افغانستان بھر اور خطے میں کئی سطحوں پر رابطوں کا ایک وسیع سلسلہ قائم کررکھا ہے اور ہم ان کی تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔‘‘

اخبار کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے اس سلسلے کو آگے بڑھانے میں غیر سرکاری ثالثوں، عرب اور یورپی حکومتوں نے مدد کی ہے۔ امریکی عہدے داروں کے بقول عسکریت پسندوں نے امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے اپنی ترجیح واضع کرنے کے علاوہ اپنے لیے بیرون ملک ایک سیاسی دفتر قائم کرنے کی تجویز بھی دی ہے جس میں قطر بھی زیر غور ہے۔

گذشتہ سال کے آخر میں طالبان کے ساتھ بات چیت کی کوششیں اُس وقت ناکام ہو گئیں جب نیٹو کے طیارے میں کابل لایا گیا طالبان کا ایک رہنما بہروپیہ نکلا۔ اوبامہ انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار کا کہنا ہے کہ کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ دوبارہ اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑے۔

تاہم امریکی انتظامیہ کے عہدے داروں کو یقین ہے کہ حالیہ بات چیت جن افراد کے ساتھ جاری ہے اُن کا ملا عمر اوراُس کی سربراہی میں پاکستان میں قائم کوئٹہ شوریٰ تک براہ راست رسائی ہے۔

واشنگٹن پوسٹ اخبار کے مطابق اُسے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی یہ تفصیلات متعدد امریکی عہدے داروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائیں ہیں۔

بقول ایک امریکی عہدے دار کے ’’افغان حکام کو طالبان کے ساتھ امریکہ کے رابطوں کے بارے میں مکمل طو رپرآگاہ رکھا گیا ہے اور پاکستانی حکام کو صرف جزوی طور پر ۔‘‘

XS
SM
MD
LG