رسائی کے لنکس

امریکہ کا افغانستان اور عراق سے مزید فوجیوں کی واپسی کا اعلان


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ نے افغانستان اور عراق میں تعینات اپنے مزید فوجیوں کو جنوری کے وسط تک واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔

امریکہ کے قائم مقام سیکرٹری دفاع کرس ملر نے منگل کو پینٹاگون میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ 15 جنوری تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 2500 کر دی جائے گی اور عراق میں بھی اسی عرصے تک امریکی فوجیوں کی تعداد 2500 ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں سے فوجیوں کی واپسی کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ امریکہ کی پالیسی یا مقاصد میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔

ملر نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ اور اپنے فوجیوں، سفارت کاروں، خفیہ اداروں کے افسران اور اتحادیوں کے تحفظ کے سلسلے میں اقدامات اسی طرح برقرار رہیں گے۔

صحافیوں سے گفتگو کے دوران اپنے بیان کے بعد ملر نے صحافیوں سے کوئی سوال نہیں لیا۔

یاد رہے کہ افغانستان میں اس وقت امریکہ کے کل فوجیوں کی تعداد 4500 جب کہ عراق میں یہ تعداد 3000 ہے۔ مجوزہ منصوبے کے تحت امریکہ 15 جنوری تک عراق سے اپنے مزید 500 فوجیوں کو واپس بلائے گا۔

افغانستان اور عراق سے فوجیوں کی واپسی کے جس منصوبے کا ذکر ملر نے منگل کو کیا اسی قسم کے منصوبے کا ذکر رواں برس اکتوبر میں امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن نے کیا تھا۔ تاہم اس وقت پینٹاگون نے اس کی تصدیق نہیں کی تھی۔

ملر کے مطابق انہوں نے فوجیوں کی واپسی سے متعلق منصوبے کے اعلان سے قبل کئی رہنماؤں سے اس پر بات بھی کی جس میں کانگریس کے اراکین کے علاوہ مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد (نیٹو) کے سربراہ جنرل جینز اسٹولٹنبرگ اور افغان صدر اشرف غنی بھی شامل ہیں۔

اُن کے بقول، "صدر غنی نے امریکی فوجیوں کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا اور ہم افغانستان میں قیام امن کے لیے صدر اشرف غنی اور افغان حکومت کے ساتھ کام کرتے رہیں گے۔"

افغانستان اور شام سے فوج واپس بلانے کا ارادہ ہے۔ صدر ٹرمپ
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:42 0:00

افغانستان سے فوجیوں کے انخلا کے بعد امریکہ کے مقابلے میں اس کے اتحادی ملکوں کے فوجیوں کی تعداد اب افغانستان میں زیادہ ہو جائے گی۔

امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ افغانستان میں موجود فوج کی تعداد کم کر رہے ہیں لیکن پینٹاگون اس بات پر زور دے رہا ہے کہ وہاں امریکی فوجیوں کی نمایاں تعداد کو برقرار رکھا جائے۔

صدر ٹرمپ نے آٹھ اکتوبر کو اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ رواں برس کرسمس سے قبل افغانستان سے تمام فوجیوں کی واپسی مکمل کر لی جائے۔ بعدازاں پینٹاگون نے صدر ٹرمپ کی اس ٹوئٹ پر خاموشی اختیار کی تھی۔

صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ کے بعد قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا تھا 25 دسمبر تک فوجیوں کی واپسی سے متعلق صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ دراصل ان کی 'خواہش' تھی نہ کہ افواج کو حکم۔

یاد رہے کہ افغانستان میں امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں برس 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا۔

اس معاہدے میں افغان حکومت تو شامل نہیں تھی البتہ اس میں افغان حکومت اور طالبان کے قیدیوں کے تبادلے کے علاوہ بین الافغان مذاکرات، آئندہ برس کے وسط تک غیرملکی افواج کا افغانستان سے مکمل انخلا، طالبان کی جانب سے اس عرصے کے دوران غیرملکی افواج کو نشانہ نہ بنانے کی ضمانت اور افغانستان میں افہام و تفہیم سے نئی حکومت کے قیام سمیت دیگر نکات شامل ہیں۔

اگرچہ امریکہ کے اندر اور باہر بعض حلقے افغانستان سے امریکی فورسز کی تعداد میں کمی کرنے کے فیصلے سے متفق نظر نہیں آتے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے افغانستان سے اپنی فورسز میں کمی کا اعلان طالبان اور امریکہ کے درمیان رواں سال فروری میں طے پانے معاہدے کے عین مطابق ہے۔

تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ اگرچہ صدر ٹرمپ یہ اعلان کر چکے تھے کہ رواں برس کرسمس تک تمام امریکی فورسز کو افغانستان سے واپس آ جانا چاہیے۔ لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ تمام امریکی فوجی افغانستان سے واپس نہیں آ رہے۔

رواں سال فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت بعض معاملات ابھی طے ہونا باقی ہیں جن میں افغانستان کے سیاسی مستقبل سے متعلق افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سیاسی تصفیہ بھی شامل ہے۔

نجم رفیق کے بقول اگرچہ بین الافغان امن مذاکرات شروع ہو چکے ہیں لیکن اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔

نجم رفیق کہتے ہیں کہ امریکی حکام یہ چاہیں گے کہ افغانستان سے مکمل انخلا نہ کیا جائے۔

دوسری طرف افغان امور کے ماہر ،صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ امریکہ کے بعض اتحادیوں کی خواہش ہے کہ افغانستان سے امریکی فورسز کا انخلا بتدریج اور منظم انداز میں ہو تاکہ ملک میں سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہ ہو۔

ان کے بقول نیٹو کے سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی فورسز کا انخلا جلد بازی میں نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ یہ ایک پر خطر اقدام ہو گا۔ رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ نیٹو حکام افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کی مخالفت کر رہے ہیں اور یہ معاملہ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے درمیان تناؤ کا باعث بن سکتا ہے۔

لیکن تجزیہ کار نجم رفیق اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ امریکی فورسز کی تعداد میں کمی کرنے کا تازہ اعلان، امریکہ کی طے شدہ پالیسی کے تحت ہے۔

نجم رفیق کہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کا عمل ایک غیر منظم انداز میں نہیں ہے کیوں کہ صدر ٹرمپ 2016 کی صدارتی مہم کے دوران امریکی عوام سے یہ وعدہ کر چکے تھے کہ امریکی فورسز کو واپس بلائیں گے۔ لہذٰا صدر ٹرمپ امریکی عوام سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کر رہے ہیں۔

بین الاقوامی اُمور کی تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا ہے اگرچہ امریکی فورسز عملی طور پر افغانستان میں کوئی منظم کارروائی نہیں کر رہی۔ لیکن انٹیلی جنس معلومات کے حصول کے لیے کچھ فوج افغانستان میں موجود رہے گی۔

ہما بقائی کہتی ہیں کہ خطے کے دیگر ممالک پاکستان، چین اور روس کو افغانستان میں داعش کے پنپنے پر تشویش ہے اور طالبان کے لیے بھی داعش کی موجودگی لمحہ فکریہ ہو سکتی ہے۔ امریکی فوج کے انخلا کے بعد داعش اپنی جڑیں مزید مضبوط کر سکتی ہے۔

رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول فی الحال افغانستان سے امریکی فورسز کا مکمل انخلا نہیں ہو رہا۔ لیکن غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن عندیہ دے چکے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کے لیے کچھ فوج افغانستان میں رکھی جا سکتی ہے۔

رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول اگر امریکہ افغانستان میں اپنی کچھ فوج رکھنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اسے طالبان کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ لیکن اُن کے بقول اُنہیں نہیں لگتا کہ طالبان اس سے اتفاق کریں گے۔ کیوں کہ دوحہ معاہدے میں درج ہے کہ مئی 2021 تک افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کا انخلا ہو گا۔

XS
SM
MD
LG