رسائی کے لنکس

امریکہ میں انتخابی مہم عروج پر


امریکہ میں انتخابی مہم عروج پر
امریکہ میں انتخابی مہم عروج پر

امریکہ میں اب دو نومبر کے وسط مدتی انتخاب میں دو ہفتے باقی رہ گئے ہیں اور انتخابی مہم میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حزبِ اختلاف کے ریپبلکنز کو امید ہے کہ انہیں اس انتخاب کے نتیجے میں کافی نشستیں حاصل ہوں گی ، لیکن ڈیموکریٹس کہتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں ملک میں بعض اہم مقابلوں میں ان کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے۔

انتخابی مہم کے آخری ہفتوں میں ووٹرز نے وسط مدتی انتخابات پر توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ ڈیموکریٹس کے لیے یہ اچھی خبر ہو سکتی ہے کیوں کہ اب تک ایسا لگتا رہا ہے کہ صرف قدامت پسند ریپبلکنز ہی میں انتخاب کے بارے میں جوش و خروش موجود تھا اور وہ دو نومبر کو ووٹ ڈالنے کے منتظر تھے۔

پورے ملک میں امید واروں کے درمیان مباحثے ہو رہے ہیں۔ ریاست Delaware میں سینیٹ کی نشست کے لیے ریپبلکن Christine O’Donnell اور ڈیموکریٹ Chris Coons کے درمیان سخت مقابلہ ہو رہا ہے۔ ان کے درمیان بحث میں O’Donnell نے کہا کہ میرے مخالف نے حال ہی میں اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک مارکسٹ پروفیسر سے تعلیم حاصل کر رہے تھے اور اس کے نتیجے میں وہ ڈیموکریٹ ہو گئے۔ اس کے جواب میں ڈیموکریٹ Coons نے کہا کہ میں نہ تو آج اور نہ ماضی میں کبھی بھی clean shaven capitalist کے سوا کچھ اور نہیں رہا۔

سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ خراب معیشت اور صدر اوباما اور ڈیموکریٹس کے بارے میں مایوسی کے سبب اس سال کے انتخاب میں ریپبلکنز کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ 435ارکان کے ایوانِ نمائندگان میں اکثریت حاصل کرنے کے لیےریپبلکنز کو جن انتالیس نشستوں کی ضرورت ہے وہ انہیں مِل جائیں گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان کم ہے کہ سینیٹ پر کنٹرول کے لیے ریپبلکنز کو جن دس نشستوں کی ضرورت ہے وہ انہیں مل سکیں گی، لیکن یہ بات ناممکن نہیں ہے۔ ریپبلکنز نے کانگریس کے دونوں ایوانوں کا کنٹرول 2006 ء میں کھو دیا تھا۔

صدر اوباما
صدر اوباما

انتخابی مہم کے آخری ہفتوں میں صدر اوباما نے اپنے ڈیموکریٹک حامیوں کے ووٹ حاصل کرنے کی زبردست کوشش کی ہے۔ ان کی توجہ خاص طور سے نوجوان ووٹروں اور اقلیتوں پر ہے جنھوں نے دو سال قبل بڑی تعداد میں انہیں ووٹ دیے تھے۔ صدر اوباما نے کہا ہے کہ’’ہم صحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، اور دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایک بار پھر، امید خوف و دہشت پر غالب آ جائے گی‘‘ ۔

خاتونِ اول مشیل اوباما بھی انتخابی مہم کے سفر پر نکل کھڑی ہوئی ہیں اور سابق صدر بل کلنٹن بھی، جو آج بھی رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق بہت زیادہ مقبول ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ’’اس انتخاب میں مقابلہ اتنا سخت نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ اگر اقتصادی حالت اتنی خراب نہ ہوتی، تو مقابلہ اتنا سخت نہ ہوتا‘‘۔

ریپبلکنز بھی اپنی مشہور شخصیتوں کو میدان میں لے آئے ہیں۔ ان میں ریاست الاسکا کی سابق گورنر اور 2008ء کے انتخاب میں نائب صدارت کی امید وار Sarah Palin بھی شامل ہیں۔ ان کے مطابق’’یہ ہماری نسل کے اہم ترین انتخابات ہیں۔ حقیقی امریکہ تبدیلی کے لیے تیار ہے۔ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم آخری حد تک پہنچ چکے ہیں۔ اب ہمیں اپنی سمت بدلنی چاہیئے‘‘۔

امریکی کانگریس میں اپنی اکثریت برقرار رکھنے میں ڈیموکریٹس کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت، خاص طور سے بے روزگاری کی شرح کے بارے میں عام لوگوں کی رائے بہت خراب ہے ۔ اس کے علاوہ، ڈیموکریٹس کو ایک تاریخی رجحان سے نمٹنا پڑ رہا ہے ۔ امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر Alan Lichtman کہتے ہیں کہ’’ہو سکتا ہے کہ سینیٹ پر ڈیموکریٹس کا کنٹرول برقرار رہے لیکن اس انتخاب میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ تین مستثنیات کے سوا، امریکہ کی خانہ جنگی کے بعد سے اب تک، وہائٹ ہاؤس جس پارٹی کے پاس ہوتا ہے، جو آج براک اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی ہے، اسے ہمیشہ وسط مدتی انتخابات میں شکست ہوتی رہی ہے‘‘۔

2006ء اور 2008 ء کے انتخابات میں ڈیموکریٹس نے کانگریس کی درجنوں نشستیں حاصل کر لی تھیں۔ لیکن اب ان میں سے بہت سے ڈیموکریٹس جنھوں نے اعتدال پسند یا قدامت پسند کانگریشنل حلقوں سے انتخاب جیتا تھا، اس سال خطرہ محسوس کر رہے ہیں کیوں کہ قدامت پسند ووٹروں میں جوش و خروش بہت زیادہ ہے اور صدر اوباما اور ان کی پالیسیوں کی حمایت کم ہو گئی ہے۔

واشنگٹن میں بروکنگس انسٹی ٹیوشن کے Thomas Mann کہتے ہیں کہ ’’یہ نشستیں ایسے حلقوں میں ہیں جنھوں نے روایتی طور پر صدارتی مہموں میں ریپبلیکنز کو ووٹ دیا ہے۔ ان حلقوں میں ڈیموکریٹس کی نشستیں خطرے میں ہیں۔ ڈیموکریٹس کو بڑی تعداد میں ایسی نشستوں کا دفاع کرنا پڑ رہا ہے جو قدامت پسند ریپبلیکن حلقوں میں ہیں‘‘۔

کیپیٹل ہل
کیپیٹل ہل

2 نومبر کو ایوان نمائندگان کی تمام 435 نشستوں پر مقابلہ ہوگا جب کہ سینیٹ کی 100 میں سے 37 نشستوں اور ریاستوں کے پچاس گورنروں میں سے 37 کے لیے انتخاب لڑا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG