رسائی کے لنکس

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اوباما انتظامیہ کی حکمت عملی


امریکی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگان پر حملوں کے بعد آئی تھی اور اس وقت کے صدر جارج بش نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا آغاز کرتے ہوئے فوجی دستے افغانستان بھیجے تھے۔ آٹھ برس بعد اب بعض امریکی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے اس جنگ کا نتیجہ کیا ہے؟ دوسری جانب صدر اوباما کو ریپبلکن پارٹی کی جانب سے جن معاملات پر تنقید کا سامنا ہے ان میں2011ءمیں افغانستان سے فوجوں کی واپسی سر ِ فہرست ہے۔

افغانستان میں گذشتہ آٹھ برس سے امریکی فوج کی موجودگی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتائج کے حوالے سے کئی امریکی تھنک ٹینکس میں بحث جاری ہے۔

واشنگٹن کی امریکن یونیورسٹی کے کالج آف لاء کے پروفیسر سٹیفن ولیڈیک کا کہنا ہے کہ القاعدہ ایک چالاک دشمن ہے جس کے خلاف جنگ کے فوری نتائج حاصل کرنا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے اتنا آسان نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ القاعدہ اور طالبان وہ لوگ نہیں ہیں جو آپ پر حملہ کرنے کے لیے ایک جگہ ہی بیٹھے رہیں ۔ سوال یہ ہے کہ آپ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کسے کہتے ہیں؟ یہ کسی چھوٹے سے میدان ِ جنگ میں لڑی جانے والی جنگ نہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ ملٹری اور پبلک ریلیشنز مسئلہ ہے ،جہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم طالبان اور دہشت گردوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنی سیکورٹی کے حوالے سے درست اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ اور ایسا کرتے وقت ہمیں اس بات کو مدِنظر رکھنا ہوگا کہ طالبان کے خلاف ہمارے اقدامات کی وجہ سے طالبان کو دوبارہ متحد ہونے کا موقع نہ ملے۔

پروفیسر ولیڈیک کا کہنا ہے کہ کرسمس کے موقع پر امریکی طیارے کو بارودی مواد سے اڑانے کی کوشش کرنے کے بعد امریکہ کی جانب سے ہوائی اڈوں پر چیکنگ کا عمل سخت کرنا درست ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کرسمس کے موقعے پر طیارے کو بارودی مواد سے اڑانے کے بعد امریکہ کی جانب سے ائیرپورٹس پر کیے گئے نئے سیکورٹی اقدامات کا مقصد امریکہ کی جانب سے امریکی عوام کو یقین دلانا ہے کہ حکومت ان کے تحفظ کے لیے کام کر رہا ہے۔ اور کوئی بھی حکومت ایسا ہی کرے گی۔ میرے خیال میں اس کے علاوہ بھی سیکورٹی کے حالات بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن کے بارے میں فی الحال بتایا نہیں جا رہا مگر یہ ملک میں سیکیورٹی کے اقدامات کو فول پروف بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب حزب ِ اختلاف کی جماعت ریپبلکن پارٹی کے سینیٹر مچ میک کونیل نےاوباما انتظامیہ کو طیارے کو بارودی مواد سے اڑانے والے ملزم فاروق عبدالمطلب کہ مقدمہ چلانے کے لیے فیڈرل کورٹس کے حوالے کرنے پرتنقید کا نشانہ بنایا۔

کونیل کا کہنا ہے کہ کرسمس پر طیارے کواڑانے کی کوشش کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ انتظامیہ نے امریکی عوام اور قانون سازوں کو یمن میں القاعدہ سےدہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے اور امریکی طیارے کو تباہ کرنے کوشش کرنے والےکے خلاف ٹھوس کارروائی کرنے کی یقین دلانے کی بجائے اسے محض پچاس منٹ کی پوچھ گچھ کے بعد ہی وکیل کے حوالے کر دیا گیا۔

افغانستان کی جنگ کے حوالے سے سینیٹر مچ میک کونیل اوباما انتظامیہ کی پالیسی سے اتفاق تو کرتے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے فوجوں کی 2011ءتک واپسی کا معاملہ توجہ طلب ہے اور اتنا آسان نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اوباما انتطامیہ افغانستان میں درست اقدامات کر رہی ہے۔ ہماری اور ہمارے اتحادیوں کی کوششوں کی وجہ سے افغان حکومت کو وہاں کامیابی کا موقع ملا ہے۔ مگر ہمارے اتحادیوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کی مدد کرتے رہیں تاکہ ان علاقوں میں طالبان کو ناکام بنایا جاسکے۔ اوباما انتظامیہ کی جانب سے جولائی 2011 ءکی ڈیڈ لائن اور وہاں سے امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کی وجہ سے ہمارے اتحادی وہاں پرہمارے طویل المدتی منصوبوں کے حوالے سے مخمصے کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ اور یہ اوباما انتظامیہ کا جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ ہے۔ ہمیں ڈیڈ لائن کے تعین کے بجائے اس جنگ کی اہمیت کو مدِ نظر رکھنا چاہیئے۔ چاہے ایسا کرنا مشکل ہی کیوں نہ ہو۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا معاملہ ہو یا ہوائی اڈوں پر سکریننگ کا عمل ، امریکی لیڈران اور دانش ور اس بات پر متفق ہیں کہ القاعدہ سے لڑنے کے لئے اقدامات امریکی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔

واشنگٹن میں ماہرین کے مطابق القاعدہ کے خاتمے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے اوباما انتظامیہ کو طویل المدتی منصوبوں پر عمل کرنا ہونا ہوگا۔

XS
SM
MD
LG