رسائی کے لنکس

ایران کے مسئلےکے سفارتی حل کی توقعات


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

صدارت کی دوسری مدت کے انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد، صدر اوباما نے انتباہ کیا ہے کہ نیوکلیئر ہتھیاروں سے مسلح ایران ان کے لیے نا قابلِ قبول ہو گا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کو سفارتی طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں۔

امریکہ کی صدارت کی دوسری مدت میں اوباما کے لیے خارجہ پالیسی کا ایک بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر تنازع کو کس طرح طے کیا جائے ۔ امریکہ اور یورپی یونین نے جو پابندیاں عائد کی ہیں، ان سے ایرانی معیشت کو اتنا سخت دھچکا لگا ہے کہ ممکن ہے کہ ایران اس مسئلے کے سفارتی حل کے لیے تیار ہو جائے ۔

2012ء میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان اعلیٰ سطح کی تین مذاکراتی دور ہوئے۔ لیکن سال کے آخر تک، دونوں فریق ایران کے متنازع نیوکلیئر پروگرام کے حل کے نزدیک نہیں پہنچ سکے تھے۔

مغربی ملکوں کو ڈر ہے کہ ایران نیوکلیئر اسلحہ تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر رہا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا پروگرام پُر امن مقاصد کے لیے ہے۔

صدارت کی دوسرے مدت کے انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد، صدر اوباما نے انتباہ کیا ہے کہ نیوکلیئر ہتھیاروں سے مسلح ایران ان کے لیے نا قابلِ قبول ہو گا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کو سفارتی طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں۔

‘‘کوئی ایسا طریقہ ہونا چاہیئے جس کے ذریعے وہ پُر امن نیوکلیئر طاقت سے مستفید ہو سکیں اور اس کے ساتھ ہی اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کر سکیں، اور بین الاقوامی برادری کو واضح طور پر یہ یقین دلا سکیں کہ وہ نیوکلیئر اسلحہ کے حصول کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔’’

ایران کا ایک مطالبہ یہ ہے کہ اس پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں ان میں نرمی لائی جائے۔ لیکن امریکہ کی لگائی ہوئی پابندیاں قانون بن چکی ہیں، اور سوائے محدود مستثنیات کے، مسٹر اوباما کے لیے انہیں تبدیل کرنا مشکل ہو گا۔

ویلئیم رینسچ امریکی محکمۂ تجارت کے سابق عہدے دار ہیں اور آج کل ایک ایسو سی ایشن کے سربراہ ہیں جو کھلی تجارت کے فروغ کے لیے کام کرتی ہے۔

‘‘صدر اوباما کو کانگریس کے پاس واپس جانا ہوگا اور وہاں پھر انہیں بہت سے مختلف ارکان کے ساتھ معاملہ کرنا ہو گا۔ پابندیوں کے مقاصد کے بارے میں ان لوگوں کی سوچ الگ الگ ہے، اور صدر کے لیے ان میں ترمیم کرنا یا انہیں منسوخ کرنا، ان کی توقع سے زیادہ مشکل ثابت ہوگا۔’’

اس قسم کی رپورٹیں مسلسل آتی رہی ہیں کہ اسرائیل، ایران پر حملے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو نے حال ہی میں، 2013ء کو اس مسئلے کے تصفیے کی ڈیڈ لائن قرار دیا۔ امریکہ نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ صبر سے کام لے۔

ریٹائرڈ یو ایس میرین لیفٹیننٹ جنرل گیرگوری نیوبولڈ نے کہا ہے کہ امریکی فوج کے بہت سے سینیئر ریٹائرڈ ارکان کا خیال ہے کہ سیاست داں بڑی عجلت میں فوجی طاقت کے استعمال کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔

‘‘اس مسئلے کے بارے میں جو سیاست دانوں کے لیے ایک جذباتی بلکہ ذاتی مسئلہ بن گیا ہے، کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ان لوگوں میں فوجی اقدام کے نتائج کی سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہمیں فوجی اقدام کی جو قیمت ادا کرنی پڑے گی، وہ اس سے کہیں زیادہ ہو جو ہم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’’

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ایران میں حکومت کی تبدیلی نہیں ہے۔ اس کا اصل مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے کوئی فوجی مقاصد نہیں ہوں گے۔

توقع ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کے سفارتکار جلد ہی ایران کے ساتھ ایک اور میٹنگ کے لیے کوئی مقام اور تاریخ مقرر کریں گے ۔

جارج میسن یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر صحول بخش کہتے ہیں کہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای، مغربی ملکوں کی طرف سے رعایتیں ملے بغیر کسی تصفیے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔

‘‘خامنہ ای یورینیم کی افژودگی کو ترک نہیں کریں گے، وہ ایندھن کے اس اسٹاک سے دستبردار نہیں ہوں گے جو 20 فیصد کی سطح تک افژودہ ہو چکا ہے، نہ وہ زیادہ تفصیلی معائنوں کے لیے تیار ہوں گے اور نہ فرودو میں افژودگی کے پلانٹ کو بند کریں گے، جب تک انہیں امریکہ کی طرف سے ایسی رعایتیں نہیں ملتیں جنہیں وہ اپنے لوگوں کے سامنے ایران کی عظیم فتح کے طور پر پیش کر سکیں۔’’

پروفیسر بخش اس بارے میں پُر اُمید نہیں ہیں کہ امریکہ اس قسم کے مطالبات ماننے کو تیار ہو گا۔ ان حالات میں امریکہ اور مغربی ملک اس مشکل میں گرفتار ہو جائیں گے کہ وہ ایران پر اور کس طرح دباؤ ڈالیں۔
XS
SM
MD
LG