رسائی کے لنکس

ایران کےجوہری عزائم کا حل سفارتی ذریعے سے ہونا چاہیے:تجزیہ کار


ایران کی ایک جوہری تنصیب کا منظر
ایران کی ایک جوہری تنصیب کا منظر

اوباما انتظامیہ کو خارجہ پالیسی کے شعبے میں جو ایک بنیادی سوال درپیش رہا ہے وہ یہ ہے کہ ایران کو اپنے یورینیم افژودہ کرنے کے پروگرام ختم کرنے پر کیسے آمادہ کیا جائے۔ ایران کی صورتِ حال کے بارے میں امریکی حکومت کے دو سابق اعلیٰ عہدے داروں سے اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔

امریکہ اور یورپی یونین کا برسوں سے یہ خیال رہا ہے کہ ایران کے یورینیم کو افژودہ کرنے کے پروگرام کا مقصد نیوکلیئر ہتھیار تیار کرنا ہے ۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا پروگرام پُر امن مقاصد کے لیئے ہے جیسے بجلی پیدا کرنا۔

ایران کو اپنا نیوکلیئر پروگرام ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کے طور پر، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے چار بار قراردادیں پاس کی ہیں جن کے تحت ایران پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، کئی دوسرے ملکوں نے جن میں امریکہ بھی شامل ہے، اپنی طرف سے اضافی پابندیاں عائد کی ہیں۔

ریٹائرڈ میرین کور جنرل انتھونی زینی کہتے ہیں کہ پابندیاں دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتی ہیں۔ ’’ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیئے کہ ایسا نہ ہو کہ پابندیوں سے حکومت سے زیادہ عام لوگوں کو نقصان پہنچے۔ پابندیاں برے بھلے میں تمیز نہیں کرتیں۔ آپ کا ہدف وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو اقتدار میں ہیں، لیکن ان سے متاثر عام لوگ ہوتےہیں۔‘‘

تا ہم سابق وزیر ِ خارجہ لارنس ایگل برگ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو ایران پر زیادہ دباؤ ڈالنا چاہیئے۔’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری جو کچھ کر رہی ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ کر سکتی ہے ۔ اور میں اس بات پر زور دینا چاہوں گا کہ یہ صرف ہماری نہیں بلکہ بین الاقوامی کوشش ہو گی کہ ہتھیار بنانے کے لیئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ایران کے ہاتھ نہ لگنے دیے جائیں، اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر وہ ہتھیار بنانے کی کوشش جاری رکھیں تو ان کی اقتصادی زندگی انتہائی مشکل بنا دی جائے ۔‘‘

جہاں تک جنرل زینی کا تعلق ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ ایران کے گرد سیکورٹی کا علاقائی دائرہ قائم کیا جانا چاہیئے ۔ ’’اس علاقے میں بعض لوگوں کو ایران کے بارے میں سخت تشویش ہے۔میرے خیال میں ہم نے دنیا کے اس حصے میں سیکورٹی کے ایسے انتظامات نہیں کیئے ہیں جن سے ایران واضح طور پر الگ تھلگ ہو جائے۔ ایران اپنے ہمسایہ ملکوں کو اشارتاً دھمکیاں دیتا رہتا ہے ۔ ہمسایہ ممالک ہماری طرف اور دوسروں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کسی قسم کا باہم تعاون پر مبنی دفاع نظام ، جیسے مزائل کا دفاعی نظام یا کوئی دوسرے پروگرام ہوں جن سے ظاہر ہوتا ہو کہ ہم کسی بھی خطرےسے نمٹنے کے لیئے تیار ہیں ۔‘‘

جنرل انتھونی زینی
جنرل انتھونی زینی

اوباما انتظامیہ ایران کے ساتھ ڈپلومیسی سے کام لینا چاہتی ہے ، لیکن اس نے یہ بھی کہا ہے کہ تمام راستے کھلے ہیں۔ سفارتکاری کی زبان میں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فوجی حملے کے امکان کو رد نہیں کیا گیا ہے ۔ لارنس ایگلبرگ فوجی اقدام کے حامی ہیں لیکن صرف ایران کے خلاف نہیں۔ ’’جہاں تک شمالی کوریا کا تعلق ہے تواگر طاقت کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا تھا ، تو میں کہوں گا کہ ہمیں طاقت استعمال کر لینی چاہیئے تھی۔ ایران کے بارے میں بھی میں یہی کہوں گا۔ میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ اگر ہم نے واقعی ایران کے خلاف فوج استعمال کی تو عالمی رائے عامہ اور امریکی رائے عامہ پر خوفناک اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن یہ خوفناک اثرات اس دہشت کے مقابلے میں کہیں کم ہوں گے اگر ایک روز ہمیں کسی جگہ نیوکلیئر جنگ میں حصہ لینا پڑا ۔‘‘

جنرل زینی متفق ہیں کہ میز پر تمام متبادل راستے موجود ہونے چاہیئں۔ لیکن وہ انتباہ کرتے ہیں کہ ایران کی خلاف فوجی اقدام کے سنگین نتائج بر آمد ہو سکتےہیں۔’’اگر مسلح تصادم ہوا، اور علاقے میں حملے اور جوابی حملے ہوئے، تو اس سے توانائی کے وسائل تک رسائی متاثر ہوگی۔ اس سے پوری دنیا کی معیشت پر بہت برااثر پڑے گا۔ اسلامی دنیا میں اس کا سخت رد عمل ہوگا اگر یہ سمجھا گیا کہ یہ حملہ ضروری نہیں تھا بلکہ حفظ ما تقدم کے طور پر کیا گیا تھا۔ ایرانی متحرک مقامات سے میزائلوں سے حملے کر سکتے ہیں، وہ آبنائے ہرمز میں بارودی سرنگیں بچھا سکتے ہیں، ، دہشت گردوں کو فعال بنا سکتے ہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ یہ کارروائی ، توانائی کے وسائل کے مرکز میں بڑے پیمانے کی جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ ساری دنیا کی معیشت کا انحصار توانائی کے ان وسائل پر ہے۔‘‘

زینی اور دوسرے ہم خیال تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو ایران کے نیوکلیئر عزائم کا کوئی سفارتی حل تلاش کرنا چاہیئے تا کہ فوجی حملے سے پیدا ہونے والے سنگین نتائج سے بچا جا سکے۔

XS
SM
MD
LG