رسائی کے لنکس

القاعدہ سے نمٹنے کے لیے، عراق کی مدد کی جائے گی: اوباما


سنی نواز القاعدہ کے دہشت گرد صورتِ حال کو بگاڑ رہے ہیں، اور مسٹر اوباما کا کہنا ہے کہ القاعدہ پورے خطے اور خود امریکہ کے لیے ایک خطرہ ہے۔

صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ زور پکڑتی ہوئی القاعدہ کو ذق پہنچانے کے لیے، امریکہ عراق کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

جمعے کے دِن وائٹ ہاؤس میں مسٹر اوباما نے عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے ساتھ مذاکرات کیے، جو ملک کو متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جسے سنی اور شیعہ آبادی کے درمیان ہونے والی تشدد کی کارروائیوں کےباعث خانہ جنگی کی صورت حال کا خطرہ لاحق ہے۔

سنی نواز القاعدہ کے دہشت گرد صورتِ حال کو بگاڑ رہے ہیں، اور مسٹر اوباما کا کہنا ہے کہ القاعدہ پورے خطے اور خود امریکہ کے لیے ایک خطرہ ہے۔

مسٹر مالکی نے کہا کہ عراق اگلے سال بروقت انتخابات کرانے کے عزم پر قائم ہے، کیونکہ ، اُن کے بقول، ایک مضبوط جمہوریت کے طفیل ہی حکومت اِس قابل ہوگی کہ دہشت گردی سے نبرد آزما ہو سکے۔

وزیر اعظم یہ دورہ عراق سے امریکی افواج کے انخلا کے دو برس بعد کر رہے ہیں، جو کسی حد تک اِس لیے واپس ہوئیں کہ مسٹر مالکی اُن کی واپسی کا مطالبہ کرتے رہے تھے۔

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ عراق کی مدد جاری رکھنا ضروری ہے، جِس میں اگلے سال ایف 16 جنگی جہازوں کی رسد ملنا بھی شامل ہے۔ تاہم، کانگریس کے کچھ ارکان ایسی فوجی امداد کے پیچھے دانشمندی پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ شیعہ اکثریت والی عراقی حکومت سنی اقلیت کے ساتھ اقتدار میں شراکت سے انکار کرچکی ہے اور اُس کی ضروریات کو نظرانداز کر رہی ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سنی اور شیعہ آبادیوں کے درمیان تشدد کی کارروائیوں کے نتیجے میں اپریل سے اب تک 7500سے زائد افراد ہلا ک ہوچکے ہیں، جس سے قبل حکومتی افواج نے بغداد کے نزدیک ایک سنی احتجاجی کیمپ پر دھاوا بول دیا تھا۔
XS
SM
MD
LG