رسائی کے لنکس

اذیت ناک سلوک، امریکی صحافی کی ایران کے خلاف قانونی چارہ جوئی


فائل
فائل

قانونی چارہ جوئی دائر کرتے ہوئے، ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے نمائندے، جیسن رضائیاں نے بتایا ہے کہ اُنھیں سوچ سمجھ کر گرفتار کیا گیا، تاکہ ایران کا امریکہ کے ساتھ بات چیت میں ’’پلہ بھاری ہو‘‘؛ اور آخر کار اُنھیں ’’ایران کے لیے کارآمد پرزے کے طور پر استعمال کیا جا سکے‘‘

امریکی صحافی نے، جنھوں نے 18 ماہ تک ایرانی جیل کی صعوبتیں برداشت کی ہیں، حکومتِ ایران کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ اُنھیں یرغمال بنایا گیا اور اذیت دی گئی، جس کا مقصد امریکی حکومت سے مراحات کا حصول تھا۔

قانونی چارہ جوئی دائر کرتے ہوئے، ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے نمائندے، جیسن رضائیاں نے بتایا ہے کہ اُنھیں سوچ سمجھ کر گرفتار کیا گیا، تاکہ ایران کا امریکہ کے ساتھ بات چیت میں ’’پلہ بھاری ہو‘‘؛ اور آخر کار اُنھیں ’’ایران کے لیے کارآمد پرزے کے طور پر استعمال کیا جا سکے‘‘۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ایرانی حکام نے رضائیاں اور اُن کی بیوی کو (جنھیں دو ماہ سے زیادہ عرصے تک زیرِ حراست رکھا گیا)، باربار یہ جتلایا گیا کہ رضائیاں قیدیوں کو چھڑانے کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔

رضائیاں اُن چار صحافیوں میں سے ایک تھے جنھیں جنوری میں ایرانی قید سے رہائی ملی، جس سے چند ہی گھنٹے قبل امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے ایران کے ساتھ اُس کے جوہری پروگرام پر سمجھوتا طے کیا۔ ساتھ ہی، امریکہ نے سات ایرانی قیدیوں کو آزاد کیا اور 14 دیگر ایرانیوں کے خلاف الزامات خارج کر دیے۔

رضائیاں نے پیر کے روز ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کی ایک امریکی ضلعی عدالت کے روبرو اپنا مقدمہ دائر کیا اور ایران سے نامعلوم رقم کا ہرجانہ طلب کیا کہ قید کے دوران اُن کے خلاف ظالمانہ، اذیت ناک اور تشدد کا رویہ روا رکھا گیا۔

صحافی نے یہ مقدمہ ’فورین سورین امیونٹیز ایکٹ‘ کے ضوابط کے تحت دائر کیا ہے۔ اس قانون کے تحت، عام طور پر امریکی عدالتوں میں غیر ملکی حکومتوں کے خلاف مقدمات دائر نہیں کیے جاتے۔ تاہم، اس میں وہ ملک شامل نہیں جنھیں امریکی محکمہٴ خارجہ نے دہشت گردی کے سرپرست قرار دیا ہوا ہے۔

XS
SM
MD
LG