رسائی کے لنکس

امریکی جوہری ہتھیاروں کی فہرست منظر عام پر


امریکہ نے اعلان کر دیا ہے کہ اس کے پاس کتنے نیوکلیئر وار ہیڈز موجود ہیں۔ یوں یہ معلومات جو اب تک خفیہ تھیں، عام ہو گئی ہیں۔

حال ہی میں جو خفیہ معلومات عام کی گئی ہیں ان کے مطابق گذشتہ ستمبر تک امریکہ کے نیوکلیئر ہتھیاروں کے ذخائر میں وار ہیڈز کی تعداد 5,113 تھی ۔ ایک پرائیویٹ ریسرچ فرم آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر دارئل کِمبل ان اعداد کی تفصیل بتاتے ہیں’’اس میں دور مار وارہیڈز شامل ہیں جو مختلف جگہوں پر لگے ہوئے ہیں اور وہ جوہری بم بھی شامل ہیں جو اسٹاک میں محفوظ ہیں ۔ اس کے علاوہ ان میں کم فاصلے تک مار کرنے والے نیوکلیئر وار ہیڈز بھی شامل ہیں۔ ان میں وہ بم شامل نہیں ہیں جو ٹھکانے لگانے کے لیے علیحدہ کر لیے گئے ہیں۔ غیر جانبدار ماہرین کے اندازے کے مطابق ان کی تعداد چار سے پانچ ہزار ہے ۔‘‘

یہ تمام اعدادو شمار محکمۂ دفاع نے جاری کیے ۔ لیکن ان کا اعلان وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے نیوکلیئر اسلحہ کے عدم پھیلاؤ کے سمجھوتے کی جائزہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں نیو یارک میں 3 مئی کو کیا۔ وزیرِ خارجہ کلنٹن نے رپورٹرں سے کہا کہ اس تعداد کے انکشاف سے امریکہ کی قومی سلامتی کمزور نہیں ہوتی۔ انھو ں نے کہا’’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات ہماری قومی سلامتی کے مفاد میں ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے، ہم امریکہ کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں ہر بات صاف صاف بتا دیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔

کِمبل جیسے ماہرین کہتے ہیں کہ کئی دہائیوں تک امریکہ کے نیوکلیئر وار ہیڈز کی تعداد کو انتہائی خفیہ رکھا جاتا رہا۔’’ایک طویل عرصے تک خیال یہ تھا کہ اگر امریکہ اور دوسرے ملک اپنے نیوکلیئر وار ہیڈز کی تعداد بتا دیتے ہیں تو اس سے ایک تو یہ ہوگا کہ ان کے مخالفین کو، یعنی امریکہ کے معاملے میں روس کو، ان کی بعض کمزوریوں کا پتہ چل جائے گا اور دوسری بات یہ ہوگی کہ اس سے یہ پتہ چل جائے گا کہ ایک نیوکلیئر بم بنانے میں کتنا پلوٹونیم اور اعلیٰ قسم کا افژودہ شدہ یورینیم استعمال ہوتا ہے ۔اگرچہ یہ بات اب کافی عرصے سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔‘‘

بہت سے تجزیہ کاروں نے اوباما انتظامیہ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے ۔ ان میں سے ایک ریٹائرڈ سفیر ٹام گراہم ہیں جو گذشتہ 30سال سے تخفیف اسلحہ اور نیوکلیئر اسلحہ کے عدم پھیلاؤ کے مذاکرات میں شامل رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’یہ فیصلہ برسوں پہلے ہو جانا چاہیئے تھا۔ میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد اس قسم کی معلومات کیوں فراہم نہیں کی جاسکتیں۔ میں دوسرے تمام ملکوں پر بھی جن کے پاس نیوکلیئر ہتھیار ہیں، زور دوں گا کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔ اس سے لوگوں کے اعتماد میں اور بین الاقوامی سطح پر استحکام میں اضافہ ہوتا ہے ۔میرے خیال میں یہ بڑا مثبت قدم ہے ۔‘‘

لیکن اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سابق سفیر اور تخفیف ِ اسلحہ کے ماہرجان بولٹن کا خیال اس سے مختلف ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ واشنگٹن کے نیوکلیئر اسلحہ کے ذخیر ے میں نیوکلیئر وار ہیڈز کی تعداد افشا ء کرنا غلطی ہے ۔ ’’اس عدد کو عام نہ کرنے میں فائدہ ہے۔ اس طرح آپ کے حریف اندازہ لگاتے رہ جاتے ہیں۔یہ ایسی غلطی ہے جس کے لیے ہمیں کسی نے مجبور نہیں کیا تھا۔ اوباما انتظامیہ نے یہ اقدام اس امید پر کیا کہ اس طرح بین الاقوامی سطح پر امریکہ کو غیر سگالی حاصل ہو گی۔ اس سے انتظامیہ کی سادہ لوحی کا اظہار ہوتا ہے کہ امریکہ کی نیوکلیئر طاقت سے دنیا میں اشتعال پیدا ہوتا ہے اور اگر ہم ہر بات صاف صاف بتا دیں تو دوسری حکومتیں اپنے نیوکلیئر اسلحہ حاصل کرنے کے عزائم سے دستبر دار ہو جائیں گی اور ہماری نیک نیتی اور غیر سگالی سے متاثر ہوں گی اور ہر طرف امن و آشتی کا دور دورہ ہوگا۔‘‘

سفیر ٹام گراہم جیسے تجزیہ کار کہتےہیں کہ امریکہ کی طر ف سے یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب نیوکلیئر امور کے بارے میں اہم خبریں آ رہی ہیں۔’’امریکہ کی نیوکلیئر پالیسی کا جائزہ حال ہی میں جاری کیا گیا ہے تخفیف اسلحہ کے نئے اسٹارٹ معاہدے پر دستخط ہوئے چند روز ہوئے ہیں اور نیوکلیئر سکیورٹی کی سربراہ کانفرنس حال ہی میں منعقد ہوئی ہے۔ نیوکلیئر سکیورٹی اور نیوکلیئر اسلحہ کے عدم پھیلاؤ کے شعبے میں گذشتہ دو مہینوں میں جو کچھ ہوا ہے وہ گذشتہ دس برسوں میں بھی نہیں ہوا تھا۔‘‘

گراہم اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ اب ساری توجہ نیوکلیئر اسلحہ کے عدم پھیلاؤ کے سمجھوتے کے جائزے کی کانفرنس پر ہے جو نیویارک میں ایک مہینے تک جاری رہے گی۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ 180 سے زیادہ ملکوں کے اس اجتماع کو سمجھوتے کو اور مضبوط بنانے کے طریقے معلوم کرنے چاہئیں اور اس طرح توجہ نیوکلیئر اسلحہ کے مسائل پر مرکوز رکھنی چاہیئے ۔

XS
SM
MD
LG