رسائی کے لنکس

جنرل پیٹریاس کی تقرری کے افغان جنگ پر اثرات


جنرل پیٹریاس کی تقرری کے افغان جنگ پر اثرات
جنرل پیٹریاس کی تقرری کے افغان جنگ پر اثرات

صدربراک اوباما کا افغانستان میں کمانڈنگ جنرل کو تبدیل کرنے کا فیصلہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب داخلی طور پراس جنگ کی حمایت ایک اہم مرحلے میں داخل ہو گئی ہے ۔ کئی ہفتوں سے امریکی کانگریس میں افغانستان کی جنگ کے بارے میں تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایسی علامات نظر آ رہی ہیں کہ امریکہ کے لوگ اب اس جنگ سے تنگ آتے جا رہے ہیں۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق، قوتِ فیصلہ صدر اوباما کی قیادت کا مضبوط پہلو نہیں ہے۔ لیکن حال ہی میں انہیں ایک فیصلہ کُن مرحلے کا سامنا کرنا پڑا۔ صدر کا جنرل اسٹینلی میک کرسٹل کو برطرف کرنے اور ان کی جگہ ڈیوڈ پیٹریاس کو مقرر کرنے کا فیصلہ، بلا شبہ ان کی قیادت کا سب سے بڑا امتحان تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہمارا ملک حالتِ جنگ میں ہے ۔ افغانستان میں ہمیں ایک مشکل جنگ کا سامنا ہے ۔ لیکن جب امریکیوں کو تلخ حقیقتوں یا کٹھن امتحانوں سے گذرنا پڑتا ہے، تو وہ پیچھے نہیں ہٹتے۔ ہم ثابت قدمی سے ڈٹے رہتے ہیں‘‘۔

جب رولنگ اسٹون نامی رسالے میں ایک مضمون چھپا جس میں میک کرسٹل کے حوالے سے مسٹراوباما اور ان کی انتظامیہ کے ارکان کے بارے میں اہانت آمیز باتیں کہی گئی تھیں، تو صدر نے میک کرسٹل کا استعفیٰ قبول کر لیا۔ اس تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے، صدر اوباما نے کہا کہ میک کرسٹل کے کلمات سے امریکی جمہوریت کے ایک دیرینہ اصول کی خلاف ورزی ہوئی ۔ وہ اصول ہے فوج پر سویلین کنٹرول۔

رچرڈ وولف ایم ایس این بی سی ٹیلیویژن کے سیاسی تبصرہ نگار اور مسٹر اوباما کی صدارتی انتخابی مہم کے بارے میں ایک کتاب کے مصنف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’امریکہ اور دنیا کے لیئے یہ ایک انتہائی اہم لمحہ تھا جس میں سویلین قیادت کے مقام کا تعین ہونا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب انھوں نے واضح طور پر اپنے اختیار کا استعمال کیا اور بتا دیا کہ عنان اقتدار ان کے پاس ہے‘‘۔

سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ صدر نے جب افغانستان میں میک کرسٹل کی جگہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو مقرر کرنے کا فیصلہ کیا، تو انھوں نے ایک مشکل صورتِ حال میں بہترین فیصلہ کیا۔ امریکی کانگریس میں ریپبلیکنز میک کرسٹل کو پسند کرتے ہیں لیکن ان کی نظر میں پیٹریاس کا درجہ اور بھی بلند ہے۔ وہ انہیں عراق میں فوج میں اضافے کے دور کا ہیرو سمجھتے ہیں۔ بلکہ بعض ریپبلیکن سیاسی ماہرین کی نظر میں، وہ 2012ء کے صدارتی انتخاب کے لیے نہایت اچھے امید وار ہوں گے۔ لیکن پیٹریاس نے اب تک اس تجویز میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا ہے۔

پیٹریاس کے تقرری سے ملک کے اندر افغانستان کی جنگ کی حمایت میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کی اشد ضرورت ہے۔ عام لوگوں میں، عراق کے جنگ کے مقابلے میں، افغانستان کی جنگ کی حمایت ہمیشہ سے زیادہ رہی ہے ۔لیکن اے بی سی نیوز، واشنگٹن پوسٹ کے تازہ ترین جائزے میں جن لوگوں کی رائے معلوم کی گئی، ان میں سے صرف 44 فیصد نے یہ کہا کہ افغانستان میں جنگ لڑی جانی چاہیئے۔ گذشتہ تین برسوں میں اس سوال پر رائے عامہ کے جو جائزے لیے گئے ہیں، ان میں یہ شرح سب سے کم ہے۔

جان مئولر اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی میں جنگ اور رائے عامہ کے ماہر ہیں۔ ان کے مطابق ’’سوال یہ ہے کہ کیا لوگ مطلوبہ مدت تک اس جنگ کی حمایت جاری رکھیں گے۔ شاید اس جنگ میں پانچ سے دس سال لگ سکتے ہیں۔ بیشتر لوگ جو اس جنگ کو سمجھتے ہیں، ان کے ذہن میں یہی مدت ہے۔ پھر صحیح معنوں میں کامیابی کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ اگر کامیابی ہو بھی جاتی ہے تو کیا اس پر جو اخراجات ہوں گے اور جو دوسری قیمت ادا کرنی پڑے گی، اس کی روشنی میں یہ جنگ لڑنا مناسب ہوگا۔ میرے خیال میں، بہت سے لوگ جو پہلے اس جنگ کے حامی تھے وہ اگر مخالفت نہیں تو کسی حد تک عدم اطمینان اور بیزاری کا اظہار کرنے لگے ہیں‘‘۔

اوباما انتظامیہ جولائی 2011 تک، افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا عمل شروع کرنا چاہتی ہے۔ داخلی طور پر اب سے لے کر اس وقت تک کے لیے بنیادی سیاسی سوالات یہ ہیں کہ نیٹو کے اتحاد ی ممالک افغانستان کو محفوظ بنانے کے لیے کس حد تک کامیاب ہو چکے ہوں گے اور کیا امریکی عوام ایک ایسی جنگ کے حمایت جاری رکھیں گے جس میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد اور کامیابی کی سطح کے بارے میں شک و شبہے میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ 2012 ء کے صدارتی انتخاب میں، امریکہ کی داخلی سیاست میں افغانستان کی صورت حال زیرِ بحث آئے گی۔

پینسلوانیا میں یو ایس آرمی وار کالج کے پروفیسر لیری گڈسن کا کہنا ہے کہ’’ظاہر ہے کہ اسٹریٹجی کا تعین پالیسی سے ہوتا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں، پالیسی پر جو چیز ہمیشہ اثر انداز ہوتی ہے وہ سیاست ہے اور امریکہ میں اکثر سیاست کی تشکیل انتخابی مصلحتوں سے ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آخرِ کار ہوگا یہ کہ موسمِ خزاں کے انتخابات کے بعد، اگلے صدارتی انتخاب سے پہلے وہ مرحلہ آ جائے جب لوگ یہ کہنے لگیں کے کہ ہم نے اس مسئلے کو کافی وقت دے دیا ہے‘‘۔

میک کرسٹل کی برطرفی سے بھی پہلے، این بی سی نیوز، وال اسٹریٹ جرنل کے رائے عامہ کے جائزے کے مطابق، صدر اوباما کی مقبولیت کی شرح کم ہو کر 45 فیصد پر آگئی تھی۔ ان کے عہد صدارت کی یہ شرح سب سے کم ہے۔ مسٹر اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی کو توقع ہے کہ وسط مدتی کانگریشنل انتخابات میں ان کی پارٹی کچھ نشستیں کھو دے گی اور اگلے دو برسوں میں صدر کو خود اپنے دوبارہ انتخاب کی جنگ لڑنی ہوگی۔

XS
SM
MD
LG