رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: ایران میں افراطِ زر اور بےروزگاری


متعدد ارکانِ پارلیمنٹ نےبھی سُبکدوش ہونے والی حکومت کے آخری وقت کے فیصلوں پر کڑی تنقید کی ہے۔ مرکزی بنک نے بھی ’ریال‘ کی قیمت 50 فیصد گھٹانے کا اعلان کیا ہے

ایران کے نو منتخب صدر حسن روحانی نے ملک کی معاشی بدحالی کا رونا رویا ہے، اور احمدی نژاد کی سبکدوش ہونے والی حکومت کو ملک کے بڑھتے ہوئے افراط زر اور بے روزگاری کا ذمّہ دار ٹھہرایا ہے۔

تہران سے ’نیو یارک ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق مسٹر روحانی نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے شکائت کی کہ پچھلے دو سال کے دوران ملک کی معیشت حقیقت میں سُکڑ گئی ہے۔ متعدد ارکان پارلیمنٹ نےبھی سُبکدوش ہونے والی حکومت کے آخری وقت کے فیصلوں پر کڑی تنقید کی۔ ایران کے مرکزی بنک نے بھی ایرانی کرنسی ریال کی قیمت پچاس فیصد گھٹانے کا اعلان کیا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ اس سے حکومت بنکوں کے قرضے ادا کرنے کے قابل ہوجائے گی، لیکن اس سے افراط زر اور بڑھ جائے گا اور اشیائے صرف کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔


اخبار کہتا ہے کہ عدلیہ نے مسٹر احمدی نژاد کے قریبی ساتھیوں کے خلاف رشوت ستانی کے مقدّمے قائم کئے ہیں۔ اور سرکاری اخبار ’کیہان‘ نےاُن پر الزام لگایا ہے کہ ان کی بدنظمی سے معیشت کو نقصان پہنچاہے اور آئت اللہ خامنئی کے نام کو بٹّہ لگا ہے۔

’نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق نئے ایرانی صدر نے اس بات کا اشارہ دیا ہےکہ وُہ امریکہ کے ساتھ تعلّقات بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اُن کو یہ اختیار ہے یا اس کی خواہش ہے کہ ایران کے اُس متنازعہ جوہری پروگرام میں نرمی پیدا کی جائے جو اس عداوت کی اصل وجہ ہے۔

ایران کا دعویٰ ہے کہ اُس کا پرگرام پُرامن ہے، جب کہ امریکہ اور مغربی ملکوں کا اشتباہ ہے کہ وُہ بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس موضوع پر ہونے والے مذاکرات مسٹر روحانی کی انتخابی کامیابی سے پہلے ہی معطّل ہوگئے تھے۔


’نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق، سابق امریکی عہدہداروں، سفارت کاروں اور قومی سلامتی کے ماہرین کی ایک جماعت نے صدر اوبامہ کے نام ایک خط میں یہ مشورہ دیا ہے کہ وُہ مسٹر روحانی کی طرف سے آنے والے اِن اشاروں کا فائدہ اُٹھائیں۔ اس خط میں مسٹر روحانی کے برسر اقتدار آنے کو ایک ایسا عظیم موقع قرار دیا گیا ہے، جس سےایران کے جوہری پروگرام پر موجود محاذ آرائی کو ختم کرنے کی سفارتی کوششوں کو دوبارہ تقویت پہنچے گی۔

’وال سٹریٹ جرنل‘ کی اطلاع کے مطابق، امریکی قومی سلامتی کے ادارے کے سابق ملازم، ایڈورڈ سنوڈن نے باقاعدہ طور پر روسی حکّام کو عارضی سیاسی پناہ کے لئے درخواست دے دی ہے۔ اُ س کے وکیل نے سرکاری رُوسی ٹیلی وژن کو بتایا کہ سنوڈن نے یہ درخواست ماسکو ہوائی اڈّے کے ٹرانزِٹ زون میں روس کے امی گریشن کے خصوصی عہدہ دار کے حوالے کی۔ درخواست میں اُس نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر وُہ واپس امریکہ چلا گیا تو اُسے اذیّت بلکہ پھانسی تک کی سزا کا سامنا ہو سکتا ہے۔


اخبار کہتا ہے کہ روسی قانون کے تحت، عارضی سیاسی پناہ مستقل پناہ سے بالکل مُختلف ہوتی ہے۔ مستقل پناہ صدارتی فرمان ہی سے ممکن ہے۔ اور اس کا حصول نسبتاً مُشکل ہوتا ہے۔ عارضی سیاسی پناہ، پناہ گزین کے درجے کے زیادہ قریب ہے۔ اس کا اجرا روسی امی گریشن عہدہ دار کرتے ہیں اور یہ عام طور پر ایک سال کے لئے دی جاتی ہے اور اس کی تجدید بھی ہو سکتی ہے۔

سنو ڈن کا کہنا ہے کہ وہ لاطینی امریکہ جانا چاہتا ہے، جہاں اُسے وینیزویلا، بولیویا اور نکا راگوا نے محفوظ پناہ کی پیش کش کر رکھی ہے۔ لیکن، وُہ عارضی طور پر اُس وقت تک رُوس میں قیام کرنا چاہتا ہے جب تک ان ملکوں کو جانے والے راستوں میں امریکہ نے روکاوٹ ڈال رکھی ہے، تاکہ وُہ انصاف کے کٹہرے سے نہ بھاگ سکے۔ امریکی حکام نے سنووڈن پر جاسوسی کے قانون کے تحت فردِ جُرم عائد کر رکھی ہے۔

’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ کے ایک اقتصادی جائزے کے مطابق، دنیا کے سب سے زیادہ گُنجان آباد ملکوں، یعنی چین اور ہندوستان کی معیشتیں سُست روی کا شکار ہو رہی ہیں۔ اس سال خیال یہ ہے کہ چین کی معیشت کی شرح نمُو سات اعشاریہ آٹھ اور ہندوستان کی پانچ اعشاریہ چھ ہوگی۔ اگرچہ، اس میں شُبہ نہیں کہ یہ شرح جاپان کی دو فیصد، امریکہ کی ایک اعشاریہ دو فی صد اور برطانیہ کی اعشاریہ نو فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی برکلے کےاقتصادیات کے پروفیسر پرناب بردھان اس تجزئے میں کہتے ہیں کہ ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ چین اور ہندوستان سنہ 2010 کی اقتصادی کارکردگی کو دُہرا سکیں گے۔ جب اُن کی شرح نمُو دس فیصد سے تجاوز کر گئی تھی۔ اور مغرب اب ان دو عظیم معیشتوں کی ایسی مسلسل توسیع پر تکیہ نہں کر سکتا، جس سے اُن کی گرتی ہوئی معیشتوں کو سہارا مل سکے۔ البتہ، تجزیہ کار کے مطابق، دونوں ملکوں میں ابھی امید کی کرن باقی ہے۔ چین توانائی کے صحیح استعمال کی ٹیکنالوجی میں زبردست پیش رفت کر رہا ہے۔

تجزیہ کار کا خیال ہے کہ دونوں ملکو ں کی شرح نمو مستقبل قریب میں ایک جیسی ہوگی اور ہندوستان کی جواں سال آبادی اُس کے حق میں سوُد مند ثابت ہوگی۔ لیکن، طویل وقتی نقطہ نظر سے کون سے ملک کی کار کردگی بہتر ہوگی، اِس کا دارومدار اس پر ہوگا کہ آیا وہ سیاسی اصلاحات نافذ کرتے ہیں یا نہیں۔
XS
SM
MD
LG