رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: مشرق وسطیٰ کا دورہ، توقعات


فائل
فائل

’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ نے کہا ہے کہ کسی کو یہ امید نہیں ہےکہ 20 مارچ کو ہونے والے اس دورے کے نتیجے میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور فلسطینی صدر محمود عبّاس کے درمیان ملاقات ہو سکے گی

’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ کا کہنا ہے کہ صدر اوبامہ نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اُس کی وجہ سے تصفیے کی کُچھ امید پیدا ہوگئی ہے۔

اخبار کہتا ہےکہ دو سال سے زیادہ عرصے سے اسرائیلی اور فلسطینی لیڈر، امن کے عمل میں تعطل کے لئے نہ صرف ایک دوسرے پر الزام لگاتے آئے ہیں، بلکہ اوبامہ انتظامیہ کی بے توجُہی پر بھی۔ اب جو صدر اوبامہ اور نئے وزیر خاجہ جان کیئری نے علاقے کا دورہ کرنے اشارہ دیا ہے، دونوں فریقوں کو حالات میں کسی تبدیلی کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہے۔

اخبار کا خیال ہے کہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ امریکہ مالی وسائیل سے محروم فلسطینی انتظامیہ کے وہ 20 کروڑ ڈالر واگذار کردے گی جو اُس نے کئی ماہ سے روک رکھے ہیں۔ اور کُچھ ایسی بھی باتیں ہو رہی ہیں کہ اسرائیل کے زیر انتظام مغربی کنارے میں سےبعض علاقوں کا جُزوی کنٹرول فلسطینیوں کو سونپا جائے گا اور اس کی تحویل میں عرصہٴدراز سے جو فلسطینی قیدی ہیں وُہ خیر سگالی کے جذبے کے تحت رہا کر دئے جائیں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ بعض امریکی اور اسرائیلی اس پر زور دے رہے ہیں کہ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیر پر جُزوی روک لگا دی جائے۔ لیکن، اس کے عوض فلسطینی انتظامیہ کو یہ عہد کرنا پڑے گا کہ اقوام متحدہ میں بہتر درجہ حاصل کرنے کے بعد فلسطینی انتظامیہ نے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں اسرائیل کے خلاف جو دعوے کر رکھے ہیں وہ اُن کی پیروی نہیں کرے گی۔

اخبار کا کہناہے کہ کسی کو یہ امید نہیں ہےکہ 20 مارچ کو ہونے والے اس دورے کے نتیجے میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور فلسطینی صدر محمود عبّاس کے درمیان ملاقات ہو سکے گی۔ بلکہ، دونوں فریقوں کا مذاکرات کی میز پر واپس جانا ابھی بہت دور کی بات لگتی ہے۔ خود وہائٹ ہاؤس نے جو یہ وضاحت کر دی ہے کہ صدر کوئی نئی تجویز لے کر نہیں جا رہے، اس کے پیش نظر توقعات بہت کم ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ اس دورے میں توقّع ہے صدر اوبامہ یروشلم میں دو دن قیام کریں گے اور غالباً مغربی کنارے میں بھی صدر محمود عباس کے ساتھ چند گھنٹے گُذاریں گے، اور وزیر اعظم سلام فیاض کے ساتھ ایک ترقیاتی پراجیکٹ کا دورہ بھی کریں گے۔

امریکہ میں غیر قانونی طور پر رہنے والے تارکین وطن کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہے اور ’ڈلس مارننگ نیوز‘ کہتا ہے کہ ہر شخص یہ مانتا ہے کہ یہ ایک ناقابل برداشت بات ہے، اور چونکہ اتنے لوگوں کو ملک سے نکال دینا نا ممکن ہے ۔ اور شائد یہ غیر منصفانہ حرکت بھی ہوگی۔ اُدھر ایسا لگ رہا ہے کہ کانگریس ان لوگوں کو شہریت عطا کرنے کے قریب ہے۔

لیکن، اخبار کا خیال ہے کہ قانون میں اصلاح کرنے سے غیر قانونی تارکین وطن کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ اگر یہ مسئلہ ہے تو کوئی شخص اسے حل نہیں کرنا چاہتا۔ اور عام خیال یہ ہے کہ ان غیر قانونی تارکین وطن میں سے اندازاً اسّی لاکھ بر سر روزگار ہیں جس سے حکومت کی نااہلی ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ، کانگریس نے یہ قواعد وضع کئے ہوئے ہیں کہ ملک کے اندر کون آ سکتا ہے اور اور کون نہیں آسکتا۔ لیکن، اس قانون کے نفاذ کے لئے ضروری پیسہ خرچ نہیں کیا گیا۔


اخبار کہتا ہے کہ یہاں تین سطحوں پر مشتمل امی گریشن کا جو نظام نافذ ہےاُس سے ملک کو فائدہ پہنچا ہے۔ سب سے اُونچی سطح پر وُہ غیر ملکی نہائت ہی اعلیٰ تربیت یافتہ کارکُن ہیں جن کی ملک کو بُہت ضرورت ہے۔ اور جن کو پہلے گرین کارڈ اور آخر کو شہریت بھی مل جاتی ہے۔

دوسری سطح پر ہنرمند اور نیم ہنر مند لوگ ہیں جنہیں تین سال کا ویزا دیا جاتا ہے۔ اُن میں سے بعض اپنی قابلیت کے بل بوتے پر گرین کارڈ حاصل کر لیتے ہیں۔ اور تیسری سطح پر وہ غیر ہُنر مند لوگ ہیں، جنہیں کسی بھی وقت اور کسی بھی وجہ سے ملک سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔

لیکن، اس کے باوجود انہیں بعض مراعات دی جاتی ہیں۔

مثال کے طور پر گاڑی چلانے کا لائسنس، انہیں کام کرنے کی بھی اجازت ملتی ہے۔ لیکن اُنہیں روزگار اور لیبر قوانین کا تحفّظ حاصل نہیں۔

لیکن، وُہ غیر قانونی تارکین وطن کہلاتے ہیں جنہیں نہ تو کام کرنے سے روکا جاتا ہے اور نہ ہی ملک سے باہر نکالا جاتا ہے۔ اور یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ ایسے لوگوں کو بڑی اہم کمپنیوں نے ملازمتیں دے رکھی ہیں۔

اخبا ر کے خیال میں یہ نظام اس لئے چل رہا ہے کیونکہ اس سے غیر ہنرمند شعبے میں امریکہ کی بعض ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ مثلاً دائیوں، مالیوں، بیروں، زرعی کام کرنے والوں، مکانوں کی تعمیر اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی جن کی، بقول اخبار کے، غیر ممالک میں بھر مار ہے۔ اس لئے، اخبار کی تجویز ہے کہ مہمان مزدوروں کے نظام کو قانونی شکل دی جانی چاہئے۔


سنہ 2001 میں ہندوستانی پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملے میں ملوث ہونے کی پاداش میں موت کی سزا پانے والے افضل گُورو کو نئی دہلی کے ایک قیدخانے میں پھانسی پر چڑھائے جانے پر ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ تجزیہ کار اس پھانسی کو حکمران کانگریس پارٹی کی طرف سے ایسی کوشش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس کا مقصد کرپشن کے کئی سکینڈلوں اور دلّی میں اجتماعی آبروریز ی جیسے واقعے کے خلاف مظاہروں کے تناظر میں عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا ہے۔

اخبار نے تجزیہ کار سیما مصطفےٰ کے حوالے سے بتایا ہے کہ سالہا سال کی پس و پیش کے بعد کانگریس پارٹی کے افضل گُورو کو پھانسی پر چڑھانے کے اچانک فیصلےکے پیچھےیہ جذبہ کارفرما ہے کہ سنہ 2014 کے انتخابات میں پارٹی کی پُوزیشن کو بہتر بنایا جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس بد بینی کا مقصد محض ووٹ توڑنا ہے۔

’واشنگٹن پوسٹ‘ نے یاد دلایا ہے کہ 21 نومبر کو ممبئی کے حملوں کے دہشت گرد اجمل قصاب کو پھانسی پر چڑھانے میں بھی اسی طرح کی رازداری برتی گئی تھی۔
XS
SM
MD
LG