رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: کشیدہ ماحول اور پاک، بھارت رابطہ


من موہن سنگھ، نواز شریف
من موہن سنگھ، نواز شریف

’وال سٹریٹ جرنل‘ اخبار کہتا ہے کہ اِس ملاقات سے قبل، بعض خوفناک وارداتوں کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ بُہت بڑھ گیا تھا

ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم، ڈاکٹر منموہن سنگھ اور میاں نواز شریف کے مابین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے دوران اتوار کو جو ملاقات ہوئی ہے، اُس میں’وال سٹریٹ جرنل‘ اخبار کے مطابق ان جوہری ہتھیاروں سے لیس ملکوں کے مابین کشیدہ تعلّقات میں کُچھ پیش رفت ہوئی ہے اور اُن کے درمیان اپنی سرحدوں کے متنازعہ حصّوں میں جاری تناؤ پر قابو پانے کے لئے بعض اقدامات پراتّفاق رائے ہوگیا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ اس ملاقات سے قبل بعض خوفناک وارداتوں کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ بُہت بڑھ گیا تھا۔ اور واشنگٹن محسوس کرتا ہے کہ اس تناؤ کی وجہ سے افغانستان میں اثرو نفوذ بڑھانے کی غرض سے ایک ضرر رساں مسابقت کو ہوا لگتی ہے۔ اور، اپنی مشرقی سرحد کے بارے میں تشویش کے پیش نظر پاکستان، القاعدہ کے زیر اثر اُن جنگجو جتھوں کے خلاف کاروائی نہیں کر سکتا، جو اُس کے شمال مغربی علاقے کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

حالیہ ہفتوں کے دوران، متنازعہ کشمیر کی ’لائن آف کنٹرول‘ کے آر پار ایک دوسرے کے خلاف باقاعدگی کے ساتھ گولہ باری ہوتی رہی ہے، جس کا آغاز، بقول نئی دہلی کے، پاکستانی فوجی عملے کے چوری چُھپے ہندوستانی علاقے میں گُھس کر اور گھات لگا کر پانچ ہندوستانی فوجیوں کی ہلاکت سے ہوا تھا۔ لیکن، پاکستان نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ پھر جمعرات کو مشتبہ جنگجؤو ں نے ایک ہندوستانی پولیس سٹیشن اور فوجی کیمپ پر دھاوا بول کر کم از کم آٹھ افراد کو ہلاک کیا تھا۔

ہندوستان کا یہ بھی الزام ہے کہ مشرقی افغانستان کے شہر جلال آباد میں بھارتی قونصل خانے پر اگست کے اوائل میں جن جنگجؤوں نے بموں کا نشانہ بنایا، انہیں پاکستان کی پُشت پناہی حاصل تھی۔ لیکن، پاکستان اس کی بھی تردید کرتا ہے۔


اتوار کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد، پاکستانی ترجمان جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا کہ اس کا سب سے اہم ماحصل کشیدگیوں میں کمی کی صورت میں نکلاہے،جبکہ دہشت گردی سمیت تمام امور زیر بحث آئیں گے۔

اُدھر، ہندوستانی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اُن کے ملک کو یقین ہے کہ پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی نہیں چاہتی کہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں۔

اخبار کہتا ہے کہ اسلام آباد بار بار اس کی تردید کر چکا ہے کہ اس کی حکومت کی کوئی شاخ ہندوستان پر حملے کرنے کی حمائت کرتی ہے۔

لیکن، جیسا کہ اخبار کہتا ہے، میاں نواز شریف خود کہہ چکے ہیں کہ 1999 ءمیں اُنہیں ہندوستان کے ساتھ امن کے اقدامات کی پاداش میں ایک فوجی انقلاب کی مدد سے وزیر اعظم کے عُہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ انہوں نے یہی بات نیو یارک میں پاکستانی کمیونٹی کے ارکان سے اپنے خطاب میں دُہرائی تھی۔

اخبار کہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کی جڑ کشمیر ہے اور دونوں کے مابین جامع سمجھوتہ کشمیر کی حیثیت پر تصفئے کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔ لیکن، اخبار کی دانست میں، یہ تصفیہ غالباً اُسی صورت حال کو برقرار رکھنے سے ہو سکتا ہے، جس میں یہ علاقہ اس وقت دو حصّوں میں بٹا ہوا ہے۔


اِسی موضوع پر، تجزیہ کار ڈیکلن والش ’نیو یارک ٹائمز‘ میں کہتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے لیڈروں کے درمیان نیو یارک کی ملاقات میں کشمیر میں تحمّل برتنے کے وعدوں کو تو دُہریا گیا، لیکن اس کے خاتمے پر تعلّقات میں کسی نئے آغاز کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

ڈاکٹر منموہن سنگھ اور میاں محمد شریف ذاتی طور پر تعلّقات کو معمول پر لانے کے حق میں ہیں۔ لیکن، دونوں کی فوجی اور سیاسی مجبوریاں ہیں۔

منموہن سنگھ کی پارٹی کو اگلے سال کے اوائل میں عام انتخابات میں ان ہندو سیاسی پارٹیوں کا مقابلہ درپیش ہے جو پاکستان کے خلاف سخت گیر پالیسی چاہتے ہیں۔

مسٹرشریف سے ملاقات کیلئے منموہن سنگھ کو اپنے ملک میں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چنانچہ، اقوام متحدہ سے اپنے خطاب میں انہوں نے پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز قرار دیا اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گرد مشین کو بند کرے۔ یہ اشارہ لشکر طیبہ کی طرف تھا۔ سنہ 2008 میں ممبئی میں جو دہشت گردانہ حملے ہوئے تھے، جن میں 166 افراد ہلا ک ہوئے تھے، ان کے لئے اسی تنظیم کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا، جس کی قیادت پاکستان میں آزادانہ گھوم پھر رہی ہے۔

اس کے برعکس، ڈکلن والش کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے دور کے آغاز پر زور دیا۔ اور، اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ دونوں ملک جوہری اسلحے کی دوڑ پر اپنے وسائل ضائع کر رہے ہیں۔

یہ، اِس اعتبار سے ایک چُبھتا ہوا بیان تھا کہ اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں اُنہوں ہی نے پاکستانی جوہری بموں کے تجربے کرنے کا احکامات جاری کئے تھے۔

والش کی نظر میں نواز شریف کی امن کی یہ نئی کوشش اپنی سابقہ وزارت عظمیٰ کے دور کی ایسی ہی کوشش کا تسلسل ہے جس میں انہوں نے ہندوستان کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا اور جو ایک جوہری بُحران اور ایک فوجی انقلاب کی وجہ سے ناکام ہوئی تھی۔ چنانچہ، ماضی کی طرح وہ اب بھی ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات کو دونوں ملکوں کے لئے ایک معاشی ضرورت سمجھتے ہیں۔

والش یاد دلاتے ہیں کہ1999 ءمیں نواز شریف نے اس وقت کے ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ امن کی جانب اہم پیش رفت کی تھی۔

لیکن، کچھ ہی مہینوں کے اندر پاکستانی فوج نے متنازعہ کشمیر میں ایک خفیہ کاروائی کی، جس کے نتیجے میں، امن کی اس کوشش کا ڈرامائی خاتمہ ہو گیا۔ بلکہ، دونوں ملک ایک جوہری جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے تھے، جس کے بعد، ایک فوجی بغاوت میں مسٹر شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔
XS
SM
MD
LG