رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: ’خود کردہ را علاجے نیست‘


’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ امریکہ اور افغانستان کے مابین سیکیورٹی کا جو دو طرفہ معاہدہ طے پایا ہے، وہ باہر آنے کی اِس حکمت عملی کا ایک حصّہ ہے

افغانستان سے باہر آنے کے لئے امریکہ کو کیا حکمت عملی اپنانی چاہئے۔ اس عنوان سے اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ اُس ملک میں امریکی فوجی کاروائی 12 سال سے جاری ہے۔ لیکن، وہ ابھی تک سوچ میں ہے کہ مُونچھ بچانے کا بہترین راستہ کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن، لگ یہ رہا ہےکہ نتیجہ زیادہ سے زیادہ برابری کی صورت میں نکلے گا۔

اخبار کہتا ہے کہ، دونوں ملکوں کے مابین سیکیورٹی کا جو دو طرفہ معاہدہ طے پایا ہے، وہ باہر آنے کی اس حکمت عملی کا ایک حصّہ ہے۔ طالبان کے ساتھ جس سیاسی سمجھوتے کی امّید باندھی گئی تھی، اس کا بھی یہی حال ہے۔ کیونکہ، اس میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے، اور سنہ 2014 میں وہاں جو صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں، وہ بھی مسائل کا شکار ہیں۔


افغان صدر حامد کرزئی اور وزیر خارجہ جان کئیری کے مابین سیکیورٹی کے جس معاہدے کا اعلان کیا گیا ہے، اس کی اہم جزیات میں سنہ 2014 میں نیٹو کے موجودہ مشن کے خاتمے کے بعد افغانستان میں کُچھ امریکی فوجوں کا پیچھے رہنا شامل ہے۔ لیکن، تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں، اور ابھی یہ بات مشکوک ہے کہ آیا مسٹر کرزئی کو ما بعد سنہ 2014 کے معاہدے کے لئے امریکہ کی شرائط قبول ہونگی۔

امریکہ نے اِس معاہدے کو طے کرنے کی حتمی تاریخ 31 اکتوبر مقرر کی ہے۔ لیکن، مذاکرات اس سے پہلے تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں، جیسے عراق میں ہوا تھا۔ وہاں بھی امریکی فوجوں کو مقامی قانون سے استثنیٰ کے معاملے پر سمجھوتہ نہ ہونے کی وجہ سے امریکی فوجوں کو نکلنا پڑا تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ نے ابھی تک باقاعدہ طور پر یہ نہیں بتایا ہے کہ کُچھ امریکی فوج افغانستان میں موجود رہنی چاہئے ۔اور نہ یہ بتایا ہے کہ یہ کتنی ہونی چاہئے۔ اور یہ بھی نہیں بتایا گیا ہے کہ آخر اس کی کیا ضرورت ہے۔ اگرچہ یہ ضرور کہا گیا ہے کہ یہ فوج افغان سیکیورٹی افواج کو تربیت فراہم کرے گی اور القاعدہ کو دوبارہ سر اُٹھانے نہیں دے گی۔

اخبار کی دانست میں، تمام امریکی فوجوں کو جس قدر جلد ممکن ہو واپس وطن لوٹنا چاہئے۔ لیکن، اگر مسٹر اوبامہ کے پاس کوئی اور دلیل ہے ، تو اس کو سننا بھی ضروری ہے۔


اخبار کہتا ہے کہ بعض اطلاعات کے مطابق، بہت سے افغانوں کو اندیشہ ہے کہ کابل حکومت تنزُّل کا شکار ہوجائے گی اور ملک میں پھر خانہ جنگی شرو ع ہوجائے گی۔ اور یہ کہ افغانستان میں ساڑھے تین لاکھ نفوس پر مشتمل جو سیکیورٹی فوج تیار کی گئی ہے، اُس کی اہلیت مشکوک ہے، باوجودیکہ اس کے امریکی ہتھیاروں اور تربیت پر 40 ارب ڈالر کی لاگت آ چکی ہےِ۔ اور اگرچہ لڑائی کے حالیہ دور میں، افغان فوج، باغیوں کے خلاف ڈٹّی رہی ہے۔ اُس کو اہم کامیابیاں نصیب نہیں ہوئی ہیں۔ بلکہ، بعض عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ اُس کا بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔ کُچھ عرصہ قبل، امریکی کمانڈر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس جنگ کا خاتمہ فوجی فتح کی صورت میں نہیں، بلکہ مذاکرات سے طے پانے والے تصفئے سے ہی ممکن ہے۔ لیکن، یہ مذاکرات بوجوہ تعطل کا شکار ہوگئے اور اگلے سال اپریل میں افغان انتخابات کے بعد ہی ان کے دوبارہ شروع ہونے کی توقّع ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ اس وقت افغانستان کو ایک نئے صدر کو منتخب کرنے اور اُس کی سرکردگی میں متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ لیکن، انتخابی عمل بیشتر مسٹر کرزئی کے تصرُّف میں ہے اور پہلے کی طرح کرپشن کا شکار ہے۔

اور رائیٹر کی رپورٹ کے مطابق، انتخابات میں جو ووٹر کارڈ استعمال ہوتے ہیں وُہ پانچ ڈالر فی کارڈ کے حساب سے فروخت ہو رہےہیں۔ چنانچہ، اخبار کہتا ہے کہ امریکی فوجیں، چاہے کتنے عرصے وہاں متعیّن رہیں، کچھ نہیں کرسکتیں، کیونکہ خود کردہ را علاجے نیست۔


اسی موضوع پر سابق سفیر ڈین سمپسن ’پٹس برگ پوسٹ گزٹ‘ میں ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان سے مقررہ وقت پر اپنی فوجیں ہٹا لینی چاہیئں اور یہ کہ اُسے سمندر پار مزید ایک فوجی چھاؤنی قائم کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔

وُہ کہتے ہیں کہ امریکی عوام اور اُس کے لیڈر افغانستان کی جنگ سے عاجز آچُکے ہیں۔ امریکہ اب تک اس جنگ میں 700 ارب ڈالر جھونک چُکا ہے اور 2287 انسانی جانوں کی قربانی دے چکا ہے۔

مضمون نگار کا کہنا ہے کہ امریکہ اور افغان حکومت کے مابین اس وقت جو مذاکرات چل رہے ہیں، ان کے پیچھے وہ تاریخی مثالیں ہیں جنہیں افسوس ناک قرار دیتے ہوئے، انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ نے جہاں بھی جنگیں لڑی ہیں، اپنے پیچھے اس نے وہاں ہزاروں کی تعداد میں اپنی فوجیں چھوڑی ہیں۔ اور ایسا لگ رہا ہے کہ ہمیشہ کے لئے چھوڑی ہیں۔

جرمنی میں اب بھی پچاس ہزار امریکی فوجیں ہیں۔ جاپان میں پچاس ہزار سے زیادہ اور جنوبی کوریا میں ساڑھے 28 ہزار۔

سفیر سمپسن کی دانست میں سنہ 2013 میں یہ عادت نہ صرف مہنگی پڑ رہی ہے،۔ بلکہ غیر ضروری بھی ہے، کیونکہ، وہ کہتے ہیں کہ آج کل کے دور میں کوئی ہنگامی صورت حال پیدا ہونے پر فوجیں بڑی آسانی اور تیزی کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جا سکتی ہیں۔


وہ کہتے ہیں کہ یہ افسوسناک حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ افغانستان کی بد عنوان حکومت اپنے اخراجات کے اسی فی صد حصّے کے لئے غیر ملکی امداد پر تکیہ کئے ہوئے ہے، جس کا سب سے زیادہ بار امریکہ کو اُٹھانا پڑتا ہے۔ تیرہ سال کے خاتمے پر اور ہزاروں لوگوں کی اموات کے بعد، امریکہ کو اس جنگ کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ امریکہ فضاؤوں سے اس پر نظر رکھ سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر مناسب کاروائی کر سکتا ہے۔

کیوبا اور امریکہ کے باہمی تعلقات پر ’میامی ہیرلڈ‘ اخبار میں کارلوس گُٹی ریز اور جیمی سُچلیکی ایک تجزئے میں بتاتے ہیں کہ فدیل کاسترو کے بعد اُن کے بھائی راؤل کاسترو کی قیادت میں جو نئی حکومت کیوبا میں قائم ہوئی ہے، اُس نے سات سال کے دور اقتدار کے بعد بھی نہ تو کیوبا کے لئے کوئی نئی راہ متعین کی ہے اور نہ ہی خاطر خواہ مراعات کی پیش کش کی ہے۔ اگرچہ، توقعات یہ تھیں کہ وہ چین یا ویت نام کی مثال اپنائے گی اور امریکہ کے ساتھ مصالحت کی کوئی راہ نکالے گی۔ لیکن، راؤل کاسترو کی قیادت میں بھی کیوبا ایک ناکام ڈکٹیٹرانہ ملک ہے، جس نے برابر سرد جنگ کے دور کا امریکہ دُشمن وطیرہ اپنا رکھا ہے۔

چنانچہ، جیسا کہ مضمون نگاروں کا کہنا ہے، بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی مسائل یا تو مذاکرات کے ذریعے حل کئے جاسکتے ہیں یا اقتصادی تحریصات کی بدولت، جب کہ بعض صورتوں میں اس وقت تک صبر کرنا پڑتا ہےجب تک قیادت نہ تبدیل ہو، اور ایسا لگ رہا ہے کہ کیوبا کی مثال اسی زُمرے میں آتی ہے۔
XS
SM
MD
LG