رسائی کے لنکس

امریکی عوام مزید جنگیں نہیں چاہتے ۔۔۔


رائے عامہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ عام امریکی یہ نہیں چاہتے کہ امریکی فوج کسی بھی دوسرے ملک میں فوجی کارروائیوں میں حصہ لے۔

افغانستان اور عراق میں جاری جنگوں کے دس سال بعد عوامی رائے کے جائزوں کے نتائج بتاتے ہیں کہ امریکی عوام امریکہ سے باہر فوجی کارروائیوں کی حمایت میں ہچکچاہٹ اور تذبذب کا شکار ہیں۔ یہ تذبذب ایک ایسے وقت میں سامنے آرہا ہے جب چند عناصر یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ شام میں جاری خانہ جنگی کو روکنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔

شام میں تقریبا دو برسوں سے خانہ جنگی جاری ہے اور وہاں پر عام شہریوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ’سیرین سپورٹ گروپ‘ سے منسلک ڈین لیمین ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمیں زیادہ تر عطیات شامی امریکیوں کی جانب سے ملتے ہیں۔ گو کہ ہم تمام دنیا سے عطیات لیتے ہیں۔‘‘

ڈین لیمین کی تنظیم شام میں موجود باغیوں کی حمایت کرتا ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے امریکیوں کی حمایت حاصل کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ان کے الفاظ، ’’امریکی عوام افغانستان اور عراق میں جاری جنگ اور امریکی وسائل کے استعمال پر قدرے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ اس وجہ سے زیادہ مدد کی توقع رکھنا ٹھیک نہ ہوگا۔‘‘

حال ہی میں واشنگٹن میں چند سیاح سے کی گئی بات چیت بھی کچھ ایسی ہی منظر کشی کرتی دکھائی دے رہی ہے۔

سٹیون فیلڈز کہتے ہیں کہ، ’’ہمیں اس بارے میں محتاط رویہ اپنانا ہوگا۔‘‘

ریاست وسکونسن سے تعلق رکھنے والی جولی کہتی ہیں، ’’ہمیں امن کی طرف کام کرنا ہوگا۔ ہم نے بہت جنگیں دیکھ لیں۔ ہمیں امن چاہیئے۔‘‘

ریاست میساچوسٹس سے تعلق رکھنے والے جیسن کیپیٹ کا کہنا ہے کہ، ’’یقینا ہمیں تھوڑا محتاط ہونا ہوگا۔ جو کچھ ہم نے پچھلے دس سالوں میں کیا ہے اس کا اثر ہماری معیشت پر بھی پڑا ہے۔‘‘


یہی بات امریکہ میں مختلف تنظیموں کی طرف سے کیے جانے والے عوامی رائے کے جائزوں میں سامنے آئی ہے۔ کیرول ڈائٹری ’پیو ریسرچ سنٹر‘ سے منسلک ہیں۔ ان کے مطابق، ’’موجودہ معاشی حالات دو بڑی جنگوں اور اب مشرق ِ وسطیٰ اور چین میں جاری جنگوں کی وجہ سے پیش آئے ہیں۔ اور فی الحال ان حالات میں کوئی بہتری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ عوام یقینا امریکہ میں مزید ایسی کسی کارروائی کی حمایت نہیں کرنا چاہیں گے۔‘‘

ڈین لیمن کے مطابق یہ حالات پریشان اور مایوس کن ہیں۔ ان کے الفاظ، ’’شاید امریکی عوام ایسا محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں خارجہ پالیسی کے حوالے سے اب قدرے کنارہ اختیار کرنا چاہیئے۔ ایسا درست نہیں ہے، خاص طور پر اُس وقت جب دنیا میں اتنا کچھ ہو رہا ہے جہاں ہماری مدد کی ضرورت ہے۔‘‘
XS
SM
MD
LG