رسائی کے لنکس

کوارٹر فائنلز: کس میں کتنا دم ہے اور فیورٹ کون ہے؟


Members of the Free Syrian Army stand behind a machine gun turret with a flag reading "There is no God but Allah and Mohammad is his messenger" in Aleppo's Bustan Al Qaser district, Syria, January 2, 2013.
Members of the Free Syrian Army stand behind a machine gun turret with a flag reading "There is no God but Allah and Mohammad is his messenger" in Aleppo's Bustan Al Qaser district, Syria, January 2, 2013.

عالمی کرکپ کپ 2011ء کے کوارٹر فائنل مرحلے میں پہلا مقابلہ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان 23مارچ کو شیرِ بنگلہ اسٹیڈیم ڈھاکہ میں ہوگا۔

مجموعی طور پر دونوں ٹیموں کے درمیان 114میچ کھیلے گئے ہیں جِن میں ویسٹ انڈیز کا پلڑا بھاری ہے۔ اُس نے 64میچ جیتے ہیں جب کہ پاکستان نے 48میں کامیابی حاصل کی ہے۔البتہ، دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلے گئے گذشتہ دس میچوں میں پاکستان کی کارکردگی اچھی ہے اور فی الوقت آئی سی سی رینکنگ میں پاکستان کی ٹیم چھٹے جب کہ ویسٹ انڈیز نویں نمبر پر ہے۔

دفاعی چمپین آسٹریلیا کی مضبوط ٹیم کو راؤنڈ کے آخری میچ میں شکست دینے کے بعد پاکستان کا اعتماد بلند ہوگا جب کہ بھارت کے خلاف آخری میچ میں اچانک ٹیم کا ڈھیر ہوجانا ویسٹ انڈیز کےلیے دباؤ کا سبب ہو سکتا ہے۔ دونوں ٹیموں کا کوئی بھی کھلاڑی عالمی رینکنگ میں ٹاپ ٹین پوزیشنز پر نہیں ہے۔

پاکستان کو اسپن کے شعبے میں ویسٹ انڈیز پر برتری حاصل ہے جب کہ ویسٹ انڈیز کی فیلڈنگ پاکستان سے بہتر ہے۔بلے بازی میں دونوں ٹیموں کی کارکردگی میں اتار چڑھاؤ معمول کا حصہ ہے۔ کرکٹ پنڈت اِس میچ میں پاکستان کو فیورٹ قرار دے رہے ہیں، مگر ویسٹ انڈیز نہ صرف مجموعی طور پر بلکہ ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان کے خلاف بہتر ریکارڈ کا حامل ہے۔

دوسراے کوارٹر فائنل 24مارچ کو بھارت اور دفاعی چمپین آسٹریلیا کے درمیان احمد آباد میں کھیلا جائے گا۔ دونوں ٹیموں کو ٹورنامنٹ کے ہاٹ فیورٹ شمار کیا جارہا ہے اور یہ طے ہے کہ ایک کا سفر اِسی میچ میں تمام ہوجائے گا۔ بھارت کو مضبوط بیٹنگ لائن، بلے بازوں کے فارم میں ہونے اور ہوم گراؤنڈ اور ہوم کراؤڈ کا ایڈوانٹیج حاصل ہوگا۔

میزبان ٹیم کا ایک اور مضبوط پہلو اسپن کا شعبہ ہے۔ بھارت کو یہ اعتماد بھی حاصل ہوگا کہ ایک ایشیائی ٹیم اِس میچ سے قبل آسٹریلیا کے ورلڈ کپ مقابلوں میں مسلسل 34فتوحات کے تسلسل کو توڑ چکی ہے۔

بھارت کو یہ اعتماد بھی حاصل ہوگا کہ ایک ایشیائی ٹیم اِس میچ سے قبل آسٹریلیا کے ورلڈ مقابلوں میں مسلسل 34فتوحات کے تسلسل کو توڑ چکی ہے۔ بھارت کی کمزوری گذشتہ تین میچوں میں لوئر آرڈر کا مسلسل ناکام ہونا ، اور فیلڈنگ اور فاسٹ باؤلنگ میں ہے، جب کہ آسٹریلیا کی مضبوطی اُس کی باؤلنگ اورفیلڈنگ ہے، اور اُس کا ٹاپ آرڈر بھی عمدہ فارم میں ہے ۔ لیکن، آسٹریلیا کی اسپن کا شعبہ کمزور ہے جب کہ بلے بازی میں لوئر آرڈر کے فارم میں بھی ٹیم کے لیے پریشانی ہوسکتی ہے۔احمد آباد میں جوشیلے تماشائی دو دھاری تلوار ہوں گے۔ابتدائی طور پر آسٹریلیا پر دباؤ ہوگا اور تھوڑی سی بھی غلطی بھارت کو اپنے ہی تماشائیوں کے دباؤ میں لاسکتی ہے۔

ورلڈ کپ 2011ء کا یہ واحد کوارٹر فائنل ہے جس کے بارے میں پیش گوئی کرنا مبصرین کے لیے ایک مشکل کام ثابت ہورہا ہے۔ لہٰذا، بزبا نِ عام، چانسز 50-50ہیں۔ البتہ، دونوں ٹیموں کے درمیان آج تک کھیلے گئے ایک روزہ مقابلوں پر نظر ڈالیں تو آسٹریلیا کی فتح کی شرح 63.5فی صد ہے۔ 104میچوں میں بھارت کو صرف 35میں آسٹریلیا کے خلاف فتح حاصل ہوئی ہے جب کہ 61میں کامیابی آسٹریلیا کا مقدر بنی ہے۔

کوارٹر فائنلز میں تیسرا مقابلہ جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کے درمیان 25مارچ کو ہوگا۔ دونوں ٹیمیں کبھی بھی ورلڈ چمپین نہیں رہیں۔ جنوبی افریقہ، جِس کا شمار ہاٹ فیورٹ میں ہو رہا ہے، اُسے بڑے مقابلوں میں ہمت ہاردینے کا الزام دیا جاتا ہے، جب کہ نیوزی لینڈ بھرپور فائٹنگ اسپرٹ کے ساتھ پانچ سے زائد مرتبہ ورلڈ کپ کا سیمی فائنل کھیل چکی ہے۔

جنوبی افریقہ کا باؤلنگ کا شعبہ ورلڈ کپ مقابلوں میں شریک تمام ٹیموں سے مضبوط خیال کیا جارہا ہے۔ اُس کے بلے باز بھی عمدہ فارم میں ہیں، فیلڈنگ مثالی ہے۔ اُس کی واحد کمزوری بڑے میچز میں ہمت ہارجانا ہی شمار کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب، نیوزی لینڈ کو ’انجریز‘ کا سامنا ہے۔ ٹیم فائٹنگ اسپرٹ سے میدان میں اترے گی اور آل راؤنڈرز کی بڑی تعداد اُس کی طاقت ثابت ہوسکتی ہے۔مبصرین اِس میچ میں جنوبی افریقہ کو فیورٹ گردانتے ہیں۔ مجموعی طور پر دونوں ٹیمیں 51بار ایک دوسرے کے مدِ مقابل میدان میں اتری ہیں۔ جنوبی افریقہ نے 30میچوں میں کامیابی حاصل کی ہے جب کہ نیوزی لینڈ 17بار جیت سے ہم کنار ہوئ ہے۔

آخری کوارٹر فائنل مقابلہ 26مارچ کو میزبان سری لنکا اور T20چمپین انگلینڈ کی ٹیموں کے درمیان ہوگا۔ پریماداسا اسٹیڈیم کولمبو میں کھیلے جانے والے اِس میچ میں سری لنکا کو ہوم گراؤنڈ اور ہوم کراؤڈ کا ابڈوانٹیج حاصل ہوگا۔ ٹیم کی اسپن باؤلنگ کی طاقت کسی بھی دوسری ٹیم سے زیادہ ہے۔ عمدہ فیلڈنگ اضافی ہتھیار ہے۔

دوسری جانب، انگلینڈ کے چوٹی کے کھلاڑیوں کا زخمی ہوجانا، بنگلہ دیش اور آئرلینڈ سے راؤنڈ میچوں میں ہارجانا اور ہچکچاتے ہوئے کوارٹر فائنل میں پہنچنا انگلینڈ کے لیے دباؤ کا سبب ہوگا۔

کرکٹ پنڈت اِس مقابلے میں سری لنکا کی فتح کے امکانات زیادہ دیکھتے ہیں۔

مجموعی طور پر دونوں ٹیموں کی ایک دوسرے کے خلاف کارکردگی کو اگر دیکھا جائے تو انگلینڈ کی ٹیم کو معمولی برتری حاصل ہے۔ کُل

44مقابلوں میں، انگلینڈ نے 23اور سری لنکا نے 21میچوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔

انگلینڈ کو دنیائے کرکٹ میں پاکستان کے بعد دوسری بڑی ’اِن پرڈکٹ ایبل‘ ٹیم کہا جانے لگا ہے۔ ایک طرف تو ورلڈ کپ کے پہلے مرحلے میں یہ ٹیم بنگلہ دیش اور آئر لینڈ سے ہار گئی جب کہ دوسری جانب اُس نے جنوبی افریقہ کی مضبوط ٹیم کو 180سے کم ہدف کوبھی عبور کرنے نہیں دیا۔ایسی ہی کوئی کارکردگی انگلینڈ کی ٹیم کو سیمی فائنل تک پہنچا سکتی ہے۔عمومی طور پر مبصرین سری لنکا کو اگلے راؤنڈ کے لیے فیورٹ خیال کر رہے ہیں۔

کوارٹر فائنلز میں کون سی ٹیموں کو باہر ہونا پڑے گا اور کون پہنچیں گے فائنل فور میں، اِس کا حتمی فیصلہ میدان میں ہوگا۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG