واشنگٹن —
دنیا کی دس بڑی دواساز کمپنیاں، جو مسابقت کے اعتبار سے عام طور پر ایک دوسرے کی حریف ہوا کرتی ہیں، عام ڈگر سے ہٹ کر، صحت کے امریکی ماہرین کے زیر سایہ، امراض کا علاج دریافت کرنے کی نئی کوشش میں شریک ہونے سے اتفاق کر لیا ہے۔
اِس سمجھوتے کا اعلان منگل کے روز واشنگٹن میں کیا گیا۔
سمجھوتے کے تحت، اگلے پانچ سالوں کے دوران الزائمر، ٹائپ ٹو ذیابیطس، قوت مدافعت کی کمی، جوڑوں کا درد اور جِلد کے دق کے امراض کے علاج کی تلاش پر یہ 10 دواساز ادارے 23 کروڑ ڈالر خرچ کریں گے۔
حالیہ برسوں کے دوران، اِن دواساز اداروں نے نئی ادویات کی تلاش، زیادہ منافعہ اور مسابقتی برتری کے معاملے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کے لیے مجموعی طور پر اربوں ڈالر خرچ کیے۔
تاہم، امریکہ کے قومی صحت کے ادارے کے سربراہ، فرینسز کولنز نے کہا ہے کہ شراکتی اداروں کی طرف سے اپنے طور پر کچھ کر دکھانے کے انداز کے باعث دواسازی میں کوئی قابل فخر پیش رفت کے میدان میں ناکامی درپیش رہی ہے، ’جب کہ، مریض اور اُن کے اہلِ خانہ (نتائج کے) منتظر ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ایک ارب ڈالر کی لاگت سے کسی نئی دوا کی دریافت میں دواساز اداروں کو 14 برس تک لگ جائیں گے، اور پھر بھی تحقیق کی اِن انفرادی کوششوں میں 99 فی صد ناکامی بھی ہو سکتی ہے۔
کولنز نے کہا کہ دوا سازی، بقول اُن کے، ’ہم میں سے ہر ایک کے لیے ایک بہت ہی بڑا کام ہے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم مل کر اس کام کا بیڑا اٹھائیں، جس کے لیے ہمیں اپنی کوششوں کو یکجا کرنا ہوگا، اس امید کے ساتھ کہ علاج کی دواؤں کو ڈھونڈ نکالنے میں ایک سائنسی پیش رفت حاصل ہوگی۔
’این آئی ایچ‘ اور حکومت کی ’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘ کے توسط سے یہ تحقیقی گروپ تشکیل پایا ہے، جسے ’ادویات سازی کو تیز تر کرنے کے لیے ساجھے داری‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں متعدد نجی گروپوں کی طرف سے مخصوس بیماریوں کے علاج کی تلاش کے لیے کیا جانے والا کام شامل ہے۔
اِس تحقیقی پارٹنرشپ میں جو دواساز کمپنیاں شامل ہیں، اُن میں سات امریکی ادارے: ایبی وی، باؤجین انڈیک، برسٹل مائرز اسکئیب، جانسن اینڈ جانسن، لِلی، مرک اینڈ فائزر شامل ہیں؛ جب کہ برطانیہ کا گلیکسو اسمتھ کلائین؛ فرانس کا ’سنوفی‘ اور جاپان کا ’تکیدا‘ اس میں ساجھے دار ہیں۔
گروپ نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ وہ اپنا تحقیقی ڈیٹا اور تجزیات عام لوگوں کے لیے دستیاب کریں گے؛ اور یوں، دیگر تحقیق کاروں کو اُن تک رسائی فراہم ہوجائے گی، تاکہ اُس معلومات کو استعمال میں لاتے ہوئے، ادویات سازی کی مزید کوششیں جاری رکھی جاسکیں۔
اِس سمجھوتے کا اعلان منگل کے روز واشنگٹن میں کیا گیا۔
سمجھوتے کے تحت، اگلے پانچ سالوں کے دوران الزائمر، ٹائپ ٹو ذیابیطس، قوت مدافعت کی کمی، جوڑوں کا درد اور جِلد کے دق کے امراض کے علاج کی تلاش پر یہ 10 دواساز ادارے 23 کروڑ ڈالر خرچ کریں گے۔
حالیہ برسوں کے دوران، اِن دواساز اداروں نے نئی ادویات کی تلاش، زیادہ منافعہ اور مسابقتی برتری کے معاملے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کے لیے مجموعی طور پر اربوں ڈالر خرچ کیے۔
تاہم، امریکہ کے قومی صحت کے ادارے کے سربراہ، فرینسز کولنز نے کہا ہے کہ شراکتی اداروں کی طرف سے اپنے طور پر کچھ کر دکھانے کے انداز کے باعث دواسازی میں کوئی قابل فخر پیش رفت کے میدان میں ناکامی درپیش رہی ہے، ’جب کہ، مریض اور اُن کے اہلِ خانہ (نتائج کے) منتظر ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ایک ارب ڈالر کی لاگت سے کسی نئی دوا کی دریافت میں دواساز اداروں کو 14 برس تک لگ جائیں گے، اور پھر بھی تحقیق کی اِن انفرادی کوششوں میں 99 فی صد ناکامی بھی ہو سکتی ہے۔
کولنز نے کہا کہ دوا سازی، بقول اُن کے، ’ہم میں سے ہر ایک کے لیے ایک بہت ہی بڑا کام ہے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم مل کر اس کام کا بیڑا اٹھائیں، جس کے لیے ہمیں اپنی کوششوں کو یکجا کرنا ہوگا، اس امید کے ساتھ کہ علاج کی دواؤں کو ڈھونڈ نکالنے میں ایک سائنسی پیش رفت حاصل ہوگی۔
’این آئی ایچ‘ اور حکومت کی ’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘ کے توسط سے یہ تحقیقی گروپ تشکیل پایا ہے، جسے ’ادویات سازی کو تیز تر کرنے کے لیے ساجھے داری‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں متعدد نجی گروپوں کی طرف سے مخصوس بیماریوں کے علاج کی تلاش کے لیے کیا جانے والا کام شامل ہے۔
اِس تحقیقی پارٹنرشپ میں جو دواساز کمپنیاں شامل ہیں، اُن میں سات امریکی ادارے: ایبی وی، باؤجین انڈیک، برسٹل مائرز اسکئیب، جانسن اینڈ جانسن، لِلی، مرک اینڈ فائزر شامل ہیں؛ جب کہ برطانیہ کا گلیکسو اسمتھ کلائین؛ فرانس کا ’سنوفی‘ اور جاپان کا ’تکیدا‘ اس میں ساجھے دار ہیں۔
گروپ نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ وہ اپنا تحقیقی ڈیٹا اور تجزیات عام لوگوں کے لیے دستیاب کریں گے؛ اور یوں، دیگر تحقیق کاروں کو اُن تک رسائی فراہم ہوجائے گی، تاکہ اُس معلومات کو استعمال میں لاتے ہوئے، ادویات سازی کی مزید کوششیں جاری رکھی جاسکیں۔