کرونا کے دور میں ایک ایمبولینس ڈرائیور کی کہانی
اظہار حسین ایک فلاحی تنظیم 'ہیلپ ناؤ' کے لیے کام کرتے ہیں۔ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں سب سے پہلے ایمبولینس کو روانہ کیا جاتا ہے۔ لہذٰا اظہار حسین کا کام بھی بڑھ گیا ہے۔
ممبئی میں ایمبولینسز کی قلت دیرینہ مسئلہ ہے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مختلف رفاعی تنظیمیں شہر میں سرگرم ہیں۔ آج کل زیادہ تر مریض کرونا وائرس سے متاثرہ ہیں لہذٰا طبی عملہ بھی ہر وقت خطرے میں کام کرتا ہے۔
بھارت میں کرونا کے مریض پانچ لاکھ سے بڑھ چکے ہیں ایسے میں اسپتالوں میں بھی رش بڑھ چکا ہے جب کہ ایمبولینس کے لیے آنے والی کالز میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
ایمبولینس ڈرائیور کی ذمہ داری اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب مریض کی حالت تشویش ناک ہو اور اسے جلد اسپتال پہنچانا ضروری ہو۔ ایسے میں اظہار کے بقول اُنہیں اپنے اوسان بحال رکھ کر کام کرنا پڑتا ہے۔
مریض کو اسپتال پہنچانے کے علاوہ طبی عملے کی کمی کی وجہ سے اُنہیں مریض کو اسپتال کے اندر بھی منتقل کرنا پڑتا ہے۔
اظہار کے بقول اُنہیں اس وقت خوشی ہوتی ہے جب وہ صحت یابی کے بعد کسی بھی مریض کو گھر منتقل کرتے ہیں۔
لیکن کام کے دوران بہت سے افسوس ناک واقعات بھی پیش آتے ہیں۔ بعض اوقات مریض ایمبولینس میں ہی دم توڑ جاتا ہے۔ اظہار کے مطابق ایسے لمحات بہت کربناک ہوتے ہیں۔
اظہارحسین شیخ کا فون مسلسل بجتا رہتا ہے، جو اس بات کی نشانی ہے کہ لوگ ان کی خدمات کے طلب گار ہیں۔